Search This Blog

Saturday, December 4, 2010

علامہ مشرقی بہت عظيم الشان وجود تھا



علامہ مشرقی بہت عظيم الشان وجود تھا
ابولاثرحفيظ جالندھری
خالق قومی ترانہ پاکستان

حضرت علامہ مشرقی ! خدا انہيں غريق رحمت کرے!!
موت نے يہ قلعہ مضبوط بھی سر کر ليا۔ يہ قلعہ ايک عظيم فہيم وجود علم و
فضل و کمالات کا مجموعہ، گفتار و کردار کی ہم آہنگی کا ايک پيکر برسر کار و
برسر پيکار تھا۔ يہ قلعہ بھی ہمارے دور ميں خاص الخاص طرز کے مضبوط ترين
قلعوں ميں اپنی مثال آپ تھا۔
اس دارالحرب ميں جس کا نام نيم براعظم ہند ہے جس ميں آج ايک طرف
باطل اور دوسری طرف حق سارے عالم کے روبرو نکھر کر آمنے سامنے
کھڑے ہيں۔
يہ قلعہ اہل حق جان بازوں کی غيرت کی پرورش گاه تھا۔ اس حق نيوش نے اپنا
فرض اپنے ہی انداز سے ادا کرتے ہوئے بيرونی و اندرونی مخالفت کی آندھيوں،
طوفانوں کے مقابل اپنی بات پر ثبات کا دم بھرتے ہوئے ملت کے لئے سر فروشوں
کی ايک مخلص ترين جماعت مہيا کر دی اور وه کام کيا جو ہمارے دور ميں بے
مثال ہے۔
غنيم مرگ کے ہاتھوں آج يہ قلعہ منہدم نظر آرہا ہے۔ ليکن يہ انہدام مادی وجسمانی
وجود کا ہے يہ تو قلعہ کی ديواريں تھيں جو دست قضا نے توڑ ڈالی ہيں۔ صورت
نظروں سے اوجھل ہوئی ہے۔ معنی موجود ہيں اورےه معنی وه مجاہد ہيں جو اس
قلعہ کے قلعہ دار نے غيرت اسلامی کی بنيادوں پرسرفراز کئے ہيں يہ خود ملت
اسلاميہ کے مضبوط قلعے ہيں يہ سب ايک ملت واحده کے لئے سينہ سپر ہونے کے
لئے تيار کئے گئے ہيں۔
اس مرد جرار علامہ مشرقی کے طريق کار سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے
ليکن مقصد کار وہی ہے جو ہر اسلامی سپہ سالار کا ہونا چاہيئے۔
علامہ مشرقی کے علم و کمالات کی گونا گونی اور بوقلمونی پر اہل نظر و فکر
مجھ سے بہتر روشنی ڈال رہے ہيں ميں تومحض يہ کہہ رہا ہوں کہ ميں نے ان کو
قدرے قريب سے ديکھا تھا۔ مرحوم نے بارہا برسر راه ٹوک کر مجھے مخاطب
کرنے کا شرف بھی بخشا۔ ہاں برسر راه کيوں کہ وه بھی اکثر اپنی عظيم شخصيت
کے باوجود لاہو ر کی سڑکو ں پر مجھ جيسے حقيقت ازلی پيادے ہی کی مانند با
پياده چلتے پھرتے تھے۔ ان کی سپاہيانہ وردی، ان کی قائد انہ بے تصنع شاندا ر
اور وضع دار اور غريبانہ رفتار آج بھی ميرے تصور ميں ہے ايک کوه پر شکوه
جو ساری دنيا کو سدھار نے کے افکار و مہمات اپنے اندر سمائے ہوئے زمين کی
چھاتی پر رواں دوا ں نظر آيا کرتا تھا۔
محض شاعر اور سياسی و معاشرتی آويزشوں سے الگ تھلگ محض شعر و
شاعری کے تاثر سے روحوں کو گرمانے والا گردان کرعلامہ صاحب بے تکلفانہ
مجھے پکار ليتے تھے اور ميں خود سلام کرتا تو کلام سے محروم نہ رکھتے
تھے۔ بعض اوقات ان کے ساتھ چند پيروان کار بھی ہوتے تھے ليکن اکثر علامہ
صاحب تنہا دکھائی ديتے تھے۔
مجھ ازلی خاکسار سے ان کی گفتگو خاکساری پر کبھی نہيں ہوتی تھی۔ محض
شکايات ارباب نشاط دورانحطاط اوربس يا حاصل کلام يہ ہوا کرتا تھا کہ وه ہميشہ
جو کام ميں بھی کررہا ہوں اس پر مجھے حوصلہ بخشتے اور مجھے ميری راه پر
چھوڑنے سے پہلے ميرے ہی اک جاہلانہ ترانے کا بند مجھے سنا ديتے۔ ميں نے
کسی زمانے ميں لکھا تھا کہ:
تجھے سمجھتے ہيں اہل دنيا، خراب خستہ ذليل رسوا
نہيں عياں ان پہ حال تير ا، کوئی نہيں ہم خےال تيرا
کسی کی پروا نہ کر پئے جا
ليکن علامہ مشرقی ميرے”پئے“کو نکال کر باہر کر ديتے اور اس کی جگہ اپنا
”جئے جا“ رکھ ديتے۔
کسی کی پروا نہ کجئے جا علامہ مجھے جب بھی مخاطب کرتے”اوحفيظ صاحب“
کہتے۔ حالانکہ وه امرتسری تھے ليکن ميرے لئے پشاوری لہجہ اختيار فرماتے
تھے۔ ملاقات کا يہ سرسری شرف جو سرراه گاہے گاہے اچھره کے اڈه پر يا
لاہور کے ميو ہسپتال سے نيلے گنبد تک لانے والی سڑک پر ہوتا تھا، رفتہ رفتہ
کم ہوتا گيا، کيوں کہ ميں لاہور سے دور دور اور ہی اور مقامات پر خجل خوار
رہتا ہوں۔
تاہم چند سال پہلے ميں نے ان کو جس رنگ ميں ديکھا ميرے نزديک وه رنگ
مجذبانہ تھا مجھے معلوم نہيں کہ کسی اور نے محسوس کيا ہے يا نہيں ليکن اگر
ميں غلط نہيں کہتا تو گاہے گاہے برسرراه سلام کلام کے دوران ميں نے ان
کو قدرے جذب کے عالم ميں پايا۔
”اوحفيظ صاحب!“ مجھے پکار کر ٹھہرا کراب وه اپنے اشعار سنانا شروع فرما
ديتے تھے اور مجھے واقعی اپنی عزت افزائی کا احساس ہوتا تھا ۔ وه بے اسرار
سناتے چلے جاتے تھے۔ ميں چونکہ ان کو شعر و شاعری کی دنيا سے بہت بلند
مقام پر ديکھنے کا عادی تھا۔ مجھے ان کو محض شعر کی صورت ميں اپنے
مقاصد کا اظہار فرماتے ديکھ کر اک گونہ تاسف ہوتا تھا، کيونکہ شعر کے لئے
سربگريباں رہنا لازمی شرط ہے اور مرد کار و پيکار کو سربگريباں ہونے کی
فرصت کہاں!
آه! ان کے اشعار بھی ان کی روح مجروح کے تاثرات تھے مجھے علامہ مشرقی
کے اشعارسننے کے بعد پھران سے مصافحہ کے بعد اپنی راه ليتے ہوئے ہميشہ ◌ؒ
حکيم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال کا يہ شعر ياد آ جاتا اور ميری آنکھيں پرنم
ہوجاتيں۔
اگر کج رو ہيں انجم، آسماں تيرا ہے يا ميرا
مجھے فکر جہاں کيوں ہو؟، جہاں تيرا ہے يا ميرا
آه! يہ شعر، اس شعر پر کس نے غور کيا ہو گا۔ اقبال کوسمجھ لينے کا دعویٰ
کرنے والوں ميں سے اس شعر پر کون رويا ہو گا؟ ہاں کسی کے لئے اس شعرميں
رونے کی کون سی بات ہے؟ شعر کو محض لذت ذہنی سے زياده اہميت نہ دينے
والوں اورچٹخاره لے کر واه واه پر بات ختم کر دينے والوں کو اس ميں ايسی
کوئی بات کيو ں دکھائی دے کہ وه رو ديں!
بيچارے ہماشمانہ سہی۔ کاش علامہ اقبال کے کلام پر نقد و نظر کے استا د بھی
سينکڑوں سفيد صفحے کالے کرتے ہوئے اس شعر ميں شايد ايسی کوئی بات بھی
پاتے کہ اس کا خاص طور پر تذکره فرماتے!
شايد مجھ ايسے ہی چند بيچارے لوگ ہيں جو اقبال کے اشعار ميں اس تڑپ کو بھی
ديکھتے ہيں۔ ديکھتے ہی نہيں بلکہ اپنی روح کو بھی اس سوز سے گرماتے رہنے
کے طالب ہيں جس سوز سے يہ تڑپ پيدا ہوتی ہے، وہی چند بيچارے۔ اقبالؒ کے اس
شعر کے پردے ميں ايک ايسا عالم پاتے ہيں جس کی جھلک آنسوؤں کا منہ برسا
ديتی ہے تصور ميں خيال کيجئے اس عظيم حکيم کا جو يہ کہتا ہے:
گفتند جہان ما آيا بہ تومی سازو
گفتم کہ نہ می سازو گفتند کہ برہم زن
اقبال، ملت کا يہ عظيم حکيم لفظ کی صورت گری سے ہی نہيں بلکہ معنی سے
قلوب پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اقبال کا تصور کرو جو اپنے آنسو دلوں کی زمين ميں بوتا ہے اور ايسے ستارے
اگانے کے لئے سينہ کاری ميں لگا رہتا ہے ايسے انسانی ستارے جو کجروی اور
تفرقے کے مارے ہوئے انسانی ستاروں کے ٹکرانے سے جو حشر برپا ہے اس
سے بھی بے نياز نہيں ان سب کو راه پر لانے کے لئے کوشاں ہے۔ ہاں اقبال جس
کی نظر ميں انسانيت فقط اس صراط مستقيم پر چلنے کا نام ہے جو قرآن کريم
کی ہدايات پر انسانوں کو اقطار السمٰوات سے بھی آگے لے جانے کے لئے انسان
کامل نے انسانوں کو بتائی ہے اگر آپ اس معنی ميں صداقت کو ملحوظ رکھتے
ہيں تو يہ تصور بھی کريں کہ اقبال جو رات دن اقطار السمٰواتسے بھی زياده روشنی
حاصل کرنے کے انسانی ستاروں کی چشم بصيرت کھولنے کی فکر ميں ساری
زندگی گزار ديتا ہے۔
اقبال جوحوصلہ اور عزم وہمت کاپيامی ہے خود بھی انسان ہے۔ اس پرايک گھڑی
ايسی بھی آتی ہے کہ۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت
جب اسے ہم لوگ يعنی انسان جو کہ کائنات حيات کے اصل ستارے ہيں اپنی کج
روی سے باز آتے نظر نہيں آتے تو اپنی ہمت و کوشش اورحوصلہ کے باوجود
پکار اٹھتا ہے کہ: يالله
اگر کج رو ہيں انجم آسماں تيرا ہے يا ميرا
پھرمجھے فکرجہاں کيوں ہو؟
مجھے يہ شعرآج کل اکثر ياد آتا ہے اور جلال الدين خوارزم شاه، اورنگزيب
عالمگير،حافظ رحمت خان روہيلہ، شہيد سلطان ٹيپو، حضرت سيد احمد بريلوی،
حضرت اسماعيل شہيد، حالی، سر سيد احمد خان، شيخ الفاضل محمدعلی جوہر،
حکيم اجمل خان اور قائداعظم پھر خود حکيم الامت کے تصورات مجھے گھير
ليتے ہيں اورميں کہہ اٹھتا ہوں ۔
لله لله کيا ہوا انجام کار آرزو!
توبہ توبہ کس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی!
يہ سب عالی حوصلہ مردان مومن انسانی ستاروں کی کجروی کے اسباب و علل
دور کرنے کے لئے کفن بردوش رہنے والے تھے اور ہم جن کو وه برسرافلاک
پہنچانا چاہتے ہيں کہاں ہيں؟
ہرچند کہو کہ ميں۔۔۔نہيں ہيں۔
لہٰذا جب ميں علامہ مشرقی کو ان کی جدوجہد کے دوران شعر ميں اپنے جذبہ کو
بھرنے کے لئے سربگريبان رہنے کا خيال اپنے سر ميں پاتا تو مجھے آنسوؤں کے
ساتھ اقبال کا مذکوره بالا شعر ياد آ جاتا تھا اور وه عالم بھی جب انسان خد ا کے
سوا اور کچھ بھی ياد نہيں رکھ سکتا۔ شکر بھی اسی کا کرتا ہے اور شکوه بھی
اسی سے! علامہ مشرقی نے جس دور ميں ہمارے لئے قدم اٹھايا، يہ تاريخی دور
ايسے مرحلے پر تھا کہ نظم و ضبط والے سرفروشوں کو مثالی طور پر ايک
وحدت ميں لا کر دوسروں کے لئے مثال قائم کرنا محال سمجھا جا رہا تھا۔ علامہ
صاحب نے اس محال کے لفظ کو محوکر دےا! ◌ؒ
ميں نے ان مجاہدوں کو لاہور کے گلی کوچے ميں لله اکبر کا نعره بلند کرتے اور
وحدت کا دم بھرتے ہوئے ١٩۴٠ ء ميں سر کٹاتے، گولياں کھاتے مگر ثبات قدم
کے ساتھ اپنے ہی خون سے سرخروعالم آخرت کی طرف جاتے ديکھا ہے۔ آسماں
پرواز يہ مجاہد خاکسار کہلاتے تھے وه کسی پر ہاتھ نہيں اٹھاتے تھے وه محض
حق پرجم کرکھڑے ہوکر دشمنان اسلام کو صبر و ثبات کا اسلامی جوہر دکھاتے
تھے۔
خيريہ داستان خونچکاں ميرے نظميہ رزميہ ميں آرہی ہے ے ہاں فقط علامہ
مشرقی کی روح کا اثر و نفوذ دکھانا ہی ميرا مقصود ہے۔ علامہ مشرقی مجھ
عاجزکی نظرميں بہت عظيم الشان وجود تھا۔ وه قائل تھا فقط اسلام ہی کی بادشاہی
کا
ديا اس نے ہمےں ايک درس افرمان الہٰی کا
نظرڈالی نہ تھی اس نے کبھی اسباب زينت پر
خدا رحمت کرے اس پاک باطن پاک طنيت پر
”ميرے پاس خدا کی جناب سے قناعت کے بڑے خزانے ہيں اور وه زياده اس لئے
ہيں کہ ميں دوسرے مسلمانوں کی عادت کے خلاف چار آنے خرچ نہيں کرتا جب
تک کہ چھ آنے ميری جيب ميں نہ ہوں۔ اپنی چادر سے باہر تمام عمر کبھی پاؤں
نہ پھيلائے يا کبھی کوئی بدمعاشی نہيں کی، اک پسہ بچانے کے لئے ايک ميل کا
پيدل سفر بھی کر ليتا ہوں۔ وقت پر اپنی روٹی آپ پکا ليتا ہوں۔ اپنا جوتا خود گانٹھ
ليتا ہوں کپڑے کو آپ پيوند لگاتا ہوں۔ اس لئے جزرس، کفايت شعار بلکہ کنجوس
مشہور ہوں۔ ليکن الحمد لله کہ آج تک کسی کا محتاج نہيں ہوا، کسی سے قرض نہيں
ليا، کسی کا اپنے ذمے نہيں رکھا، اپنے ناخنوں کی کمائی کے بغيرکسی کا کچھ
نہيں کھايا“۔
( (علامہ عنايت لله خان المشرقی ٭ ٢٣ نومبر ١٩٣۴
علامہ مشرقی کے يہ الفاظ ميرے سينے کو تڑپا ديتے ہيں۔
( (بشکريہ:روزنامہ”جنگ“،راولپنڈی٭يکم ستمبر
١٩۶٣

No comments:

Post a Comment