Search This Blog
Wednesday, February 2, 2011
Friday, January 21, 2011
خاکسارتحریک گوجرانوالہ کاکمرتوڑ منہ زور مہنگائی،بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
گوجرانوالہ( )نائب ناظم ضلع خاکسارتحریک گوجرانوالہ عمر فراز ہنجرا نے کہا کہ حاکیہ بدترین گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملک کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے ۔جس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے حکمرانوں اور امراءطبقے کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ اس نئے بحران سے ملک کے95وے فیصد غریب و متوسط عوام براہ راست پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار خاکسارتحریک کے نائب ناظم ضلع عمرفراز نے خاکسارتحریک کے زیر اہتمام گوجرانوالہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔دوران احتجاج مظاہرین نے مہنگائی کو ختم کرو....ور نہ حکومت چھوڑ دو،دہشت گردی کی ہر علامت ....قابل مذمت قابل مرمت، دہشت گردی ختم کرﺅ....ورنہ حکومت چھوڑ دو،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لو ....ورنہ حکومت چھوڑ دو روٹی کپڑا اور مکان لوٹ کے کھا گئے حکمران، اور خاکسار چھائیں گے....انقلاب لائیں گے کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
مظاہرے میں خاکسار عابد عباس ، خاکسار اشرف علی ، خاکسار اسد عباس ، چوہدری ظہوراللہ ، خاکسار محمد اعظم ، داکٹر محمد ےوسف ، کے علاوہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کے شرکت کی۔
Sunday, January 16, 2011
خاکسارتحریک کا احتجاجی مظاہرہ
٭فون نمبرز:37555251-37535116
٭فیکس:(042)37587394
http://khaksartehrik.org/ Email : media.cell@khaksartehrik.org
http://www.facebook.com/group.php?gid=309926669380
Thursday, January 13, 2011
خاکسار تحریک کی قائد ڈاکڑ صبیحہ المشرقی کی جیو نیوز کے رپوٹر ولی خان بابر کے قتل کی شدید مذمت
Sunday, December 26, 2010
خاکسارتحریک کا احتجاجی مظاہرہ 26/12/2010
لاہور( )قائدخاکسارتحریک ڈاکٹرصبیحہ المشرقی نے کہا کہ حالیہ بدترین گےس و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔جس مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ سے حکمرانوں اور امراءطبقے کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ اس نئے بحران سے ملک کے95وے فیصد غریب و متوسط عوام براہ راست پس رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار خاکسارتحریک کی سربراہ ڈاکٹر صبیحہ المشرقی نے خاکسارتحریک کے زیر اہتمام پریس کلب کے سامنے ہفتہ وار کمرتوڑ منہ زور مہنگائی،آرجی ایس ٹی ، فلڈ سرچارج،بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباءاضافہ، امریکی ڈرون و خودکش حملوں،گمشدہ افراد کی بازیابی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی قید سے رہائی کیلئے احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔دوران احتجاج مظاہرین نے مہنگائی کو ختم کرو....ور نہ حکومت چھوڑ دو،دہشت گردی کی ہر علامت ....قابل مذمت قابل مرمت، دہشت گردی ختم کراﺅ....ورنہ حکومت چھوڑ دو،آر جی ایس ٹی واپس لوو....ورنہ حکومت چھوڑ دو،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لو ....ورنہ حکومت چھوڑ دواور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی درندوں کی قید سے رہائی دلواﺅ....ورنہ حکومت چھوڑ دواور خاکسار چھائیں گے....انقلاب لائیں گے کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
خاکسارتحریک کی سربراہ ڈاکٹر صبیحہ المشرقی نے مزیدکہا کہ حکمرانوں سمیت اپوزیشن کا رویہ انتہائی غیر دانشمندانہ اور غیر سنجیدہ ہے انہیں صرف اپنے اقتدار اور مراعات سے دلچسپی ہے ۔انہیں اپنے ملک کے غریب عوام سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی خاطر نورا کشتیاں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں چوروں اورکمیشن خوروں کا قبضہ ہو چکا ہے جنہوں نے غریبوں کی خون پسینے کی کمائی کو مفت کا مال سمجھ کر بندر بانٹ شروع کر رکھی ہے۔
خاکساررہنما ڈاکٹر صبیحہ المشرقی نے کہا کہ اس وقت قائد اعظمؒ اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی کہ ان کے پیروکاروں نے ملک کو نہ اسلامی رہنے دیا ہے اور نہ ہی جمہوری بلکہ انہوں نے تو ملک کو بیروزگاری،بے حیائی،کمر توڑ مہنگائی،غربت،مذہبی و لسانی جھگڑوں، صوبائی نفرتوں ،ناجائز منافع خوری،قانون کو روندنے والے غنڈوں اور بدمعاشوں کے سپرد کر دیا ہے۔
قائد خاکسارتحریک ڈاکٹرصبیحہ المشرقی نے شاہ زین بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے آمر مطلع حکمران پرویز مشرف کے بد ترین دور کو پھر سے یاد دلا دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے ایسے نا عاقبت اندیش ، غیر مہذب اور غیر جمہوری رویوں سے ایک بار پھر بلوچستان میں ایک اور طوفان برپا کر دیا ہے جس سے پاکستان کی وحدت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ڈاکٹر صبیحہ المشرقی نے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور پرویز مشرف کی ملک دشمن پالیسیوں کو خیرباد کہنا چاہیے۔
مرکزاعلیٰ خاکسارتحریک:-34ذیلدارروڈ،اچھرہ ،لاہور
٭فون نمبرز:37555251-37535116
٭فیکس:(042)37587394
http://khaksartehrik.org/ Email : media.cell@khaksartehrik.org
Monday, December 20, 2010
قائد خاکسار تحریک ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی سے خصوصی گفتگو
قائد خاکسار تحریک ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی سے خصوصی گفتگو
٭ قیام پاکستان سے قبل ہماری مخبریاں کرنے والوں کو انگریز سرکار نے خان بہادر‘ نواب اور سر کے خطاب سے نوازا
٭ پاکستان بننے کے بعد انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والے ہی ہمیشہ اقتدار پر براجمان رہے
٭ ہم ٹی وی پر بیٹھ کر بڑے بڑے دعوے کرنے کے بجائے عملی طور پر خدمت خلق کر رہے ہیں
٭ حمید الدین احمد المشرقی کی موجودگی کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ تحریک زندہ رہے گی
٭ ملک اور عوام پر ظلم کرنے والے پانچ فیصد اشرافیہ کے بت اب ٹوٹنے والے ہیں
٭ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ حکمرانوں نے عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے
٭ پارلیمنٹ صرف سیاسی اشرافیہ کے مفادات کی رکھوالی کر رہی ہے
٭ پیپلز پارٹی کی تمام بانی قیادت کا تعلق خاکسار تحریک کے ساتھ رہا ہے
٭ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد خاکساروں کے اکتالیس جلسوں کے باعث چہلم پر بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری کو عوام نے پتھر مارے
٭ سیلاب میں جس ادارے نے حقیقی معنوں میں عوام کی مدد کی‘ وہ فوج کا ادارہ ہے
٭ جب تک بلوچستان میں سردار اور وڈیرے موجود ہیں‘ وہاں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے
٭ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد اپنی موت تک بےنظیر بھٹو لاڑکانہ شہر آنے کی جرات نہیں کر سکی تھیں
٭ بلوچستان کے سردار تو خود بکے ہوئے ہیں‘ عوام کی خدمت کیا کریں گے
٭ امریکہ دنیا بھر میں عالمی دہشت گرد کا کردار نبھا رہا ہے
٭ ہمارے حکمران امریکی اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہیں
٭ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صدر تا چپراسی سب بدعنوانی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں
٭ حکمران غیر ملکی آقاﺅں کے مفادات کی جنگ ہم پر ٹھونسے ہوئے ہیں
٭ بھوک کے مارے خودکشیاں کرنے والے عوام ہی انقلاب کے داعی ہونگے
٭ القاعدہ وغیرہ تصوراتی باتیں ہیں‘ اصل ہدف تو وسائل سے بھرپور پاکستان ہے
٭ واپڈا کے معمولی بل کی عدم ادائیگی پر لوگوں کو الٹا لٹکا دیا جاتا ہے لیکن اربوں روپے کھا جانے والی اشرافیہ کو کچھ نہیں کہا جاتا
قائد خاکسار تحریک ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی سے خصوصی گفتگو
خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ خان المشرقی دنیا بھر میں اپنے علم‘ اصول اور کردار کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔ انہوںنے عالمگیر شہرت اور عزت پانے کے باوجود اپنی زندگی غریب عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے وقف کر دی۔ ان کے وصال کے بعد ان کے فرزند حمید الدین احمد المشرقی نے مظلوم اور غریب عوام کیلئے جدوجہد کے علاوہ عدلیہ کی آزادی‘ جمہوریت کی بحالی اور صحافت کی آزادی کیلئے ہمیشہ آواز بلند کی۔ حمید الدین احمد المشرقی کی اچانک رحلت کے باعث خاکسار تحریک کو بظاہر ایک دھچکا محسوس ہوا مگر ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی کی پرعزم جدوجہد نے اس تحریک کو جلد ہی سہارا دیا اور رفتہ رفتہ تحریک دوبارہ فعال ہوتی ہوئی نظر آئی۔ قائد خاکسار تحریک ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی کا تعلق لاڑکانہ‘ سندھ کے ایک مغل خاندان سے ہے۔ ان کے آباءو اجداد کا تعلق قلات سے تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے گائنا کالوجسٹ ہیں مگر سماجی خدمات اور تحریکی مصروفیات کے باعث اپنے پیشے کو وقت نہیں دے پاتیں۔ بطور قائد ذمہ داری سنبھالنے سے قبل وہ سندھ‘ بلوچستان کی ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے بعد خاکسار تحریک دوسری بڑی اور فعال جماعت ہے۔ باہمت خاتون ڈاکٹر صبیحہ ارشد المشرقی خاکسار تحریک کے ذریعے عوامی اور ملکی مسائل کے حل کیلئے خاصی پرجوش اور پر عزم ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
سوال: آپ کا خاندانی اور سیاسی پس منظر۔ خاکسار تحریک تک کے اس سفر کا احوال بتائیے؟
جواب:جہاں تک میرا ذاتی خاندانی پس منظر ہے،میراتعلق مغل خاندان سے ہے جو اس وقت لاڑکانہ ،سندھ میں رہائش پذیرہے۔ میرے آبا ءو اجداد قلات کے تھے۔پیشے کے لحاظ سے میں گائناکالوجسٹ ہوں،سماجی کارکن بھی ہوں اورفی الحال اس وقت میںاپنی جماعت، خاکسار تحریک کی تنظیم کے سلسلے میں لاہور میں ہوں۔خاکسار تحریک سے میرا تعلق 1992 میں قائم ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے میں شعبہ خواتین کی صدر مقررہوئی،پھر سندھ بلوچستان کی ناظم اعلیٰ کامنصب میرے سپرد کیاگیا، اوریہ عہدہ ابھی بھی میرے پاس ہے۔خاکسار تحریک کا صوبائی دفترلاڑکانہ ،سندھ میںہے اور سندھ کے حوالے سے یہیں سے ہم نے اپنا کام شروع کیاکیونکہ یہی علاقے پسماندہ اور ہر قسم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ان علاقوں کے لوگوں کو تعلیم اور دیگر ضروریات اور سہولتوں کے ضمن میںزیادہ آگہی اور ہماری خدمات کی زیادہ ضرورت تھی۔کراچی کی نسبت ان علاقوں میں جہالت اور مسائل زیادہ ہیں، اس لیے ہم نے اپنی طرف سے خدمت خلق کے لیے ان علاقوںکاانتخاب کیا۔جہاں تک خاکسار تحریک کے صوبائی دفتر کے لاڑکانہ میں قیام کاتعلق ہے، یہ قائد محترم جناب حمید الدین احمد المشرقی کی ایک خاص حکمت عملی کانتیجہ تھا۔اللہ تعالیٰ کابے اندازہ شکر ہے کہ اس وقت خاص طور پر لاڑکانہ میںپیپلز پارٹی کے بعد خاکسار تحریک دوسری بڑی اور فعال جماعت ہے۔اسی صوبائی ضلع سے پیش رفت کرتے ہوئے ہمارے کارکن ،سندھ کے دیگر شہروں، حیدرآباد، دادو، خیر پور ،سکھراور جیکب آباد میں کام کر رہے ہیں ، ہم دیگرچھوٹی چھوٹی تحصیلوں میں بھی اپنی خدمات کادائرہ وسیع کررہے ہیں۔ اگر مبالغہ آرائی نہ سمجھی جائے تو میرے ہی علاقے میں اس وقت ہزاروں خاکسار موجود ہیں۔ بلوچستان میں جماعتی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئٹہ ہمارا صوبائی مرکز ہے اور ہم لورالائی، ژوب، سبی میں بھی کام کر رہے ہیں۔ میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ جس طرح خاکسار تحریک کے قائد محترم جناب حمید الدین احمد المشرقی صاحب نے تنظیم کی ،انہوں نے ہر شعبے پر توجہ دی۔شعبہ خواتین، یوتھ فورس، کسان کونسل ،علماءکونسل، خاکسار مزدور فیڈریشن، غرض یہ کہ انہوں نے ہر شعبے کے لحاظ سے خاکسار تحریک کو منظم کیااور یہی نظام ہم نے پاکستان کے ہر صوبے میں قائم کیا۔قائد محترم جناب حمید الدین احمد المشرقی کی اچانک رحلت کے باعث ہماری تحریک کوجو دھچکالگا،اگر ہماری تحریک نظریاتی نہ ہوتی تو اس کا وجود مٹ چکاہوتا۔اس وقت ان جیسا متحرک، مخلص اور بے لوث قائدہم سے جداہوگیاتھا اور ہم سمجھ رہے تھے کہ اب ہماری تحریک ختم ہوگئی، لیکن انہوں نے ہماری اس تحریک کا جومنظم ڈھانچہ قائم کردیاتھا،اس کے باعث ہماری تحریک یہ شدید دھچکا برداشت کرنے میں کامیاب ہوئی اور خاکسار تحریک ایک نئی امنگ اور نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے لگی۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ معجزہ صرف خاکسار تحریک ہی میںموجود ہے کہ تحریک کا ہر کارکن پرعزم ہے،قائد محترم کی وفات کے بعد جماعتی عہدیداروں نے متفقہ طور پر تحریک کی سربراہی کے لیے مجھے نامزد کیا اور اس طرح خاکسار تحریک کی سربراہی میرے کاندھوں پرآن پڑی۔اس کے بعد جناب قائد محترم کے چہلم کے موقع پرمیںنے پاکستان بھر کے جماعتی عہدیداروں کی موجود گی میں دوبارہ سربراہ تحریک کے لیے اپنی طرف سے تجویز پیش کی کہ میںتو اس عظیم ذمہ داری کی اہل نہیںہوں،اگر کوئی دوسرا بہتر شخص اس منصب کے قابل ہے تو اسے یہ ذمہ داری سونپ دی جائے لیکن اس وقت بھی متفقہ طور پر مجھے صدر کی حیثیت سے برقرار رکھاگیا۔اس وقت ہم نے یہ تجدید عہد کیا کہ جو مشن ہمارے بانی جناب عنایت اللہ خان المشرقی نے مقرر کیاتھا، یعنی غلبہ اسلام،ہم اس مشن کی تکمیل تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔لیکن اسلام وہ نہیں جس میں تسبیح کے دانے پھینکے جاتے ہیں، اسلام وہ نہیں جس میں لوگ اپنی ذاتی فلاح اور نجات کے لیے نماز پنجگانہ پڑھ کر دوبارہ سماجی برائیوں میںملوث ہوجاتے ہیں، کم تولتے ہیں،ملاوٹ کرتے ہیں،ذخیر ہ اندوزی کرتے ہیں، بلکہ اسلام تو وہ ہے جس میںقول سے زیادہ عمل کی اہمیت ہے،اسلام وہ ہے جس پر ہمارے نبی اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کرکے دکھایا،وہی اصلی اور حقیقی اسلام ہے،اس وقت کوئی تفرقہ بازی نہ تھی ،سب لوگ محض مسلمان تھے ،یہ چیز ہم معاشرے میں پیداکرناچاہتے ہیں، اور انشاءاللہ بہت جلد ہم اپنے اس مقصد میںکامیاب ہوں گے۔
جب ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے یہ تحریک 1931میںشروع کی اور 1940تک ہندوستان کے چالیس لاکھ گھرانے خاکسار تحریک میںشامل ہوچکے تھے۔ہر روز مغرب کی نماز کے بعداڑھائی ہزار مراکز پر وردی اور بیلچے کے ساتھ ڈرل ہوتی اورخدمت خلق کے کام انجام دیے جاتے تھے۔یہ بہت مضبوط تحریک تھی اور یہ تحریک ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے۔اس تحریک کے متعلق ایک حیران کن بات شاید آپ کے علم میںنہ ہوکہ جون 1940کے سرکاری گزٹ میںلکھاگیا کہ کسی کو معلوم نہیں کہ کس وقت یونین جیک کے بجائے بیلچہ لہرانا شروع کر دے۔ یہ ایک طاقت ور تحریک تھی کہ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے یوپی میں شیعہ سنی اختلاف ختم کرانے کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا تھا۔ اپنے اس مقصد میں علامہ کامیاب ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کانگرس کی گیارہ صوبائی حکومتوں نے استعفے دے دیے۔یہ اس وقت نہایت طاقتور سیاسی قوت تھی‘ جس قدر تیزی کے ساتھ یہ ابھر رہی تھی،اس کی قوت کو کم کرنے کے لیے اتنی ہی زیادہ اس کے خلاف سازشیں کی گئیں اور19 مارچ 1940میں اس کا براہ راست انگریز پولیس کے ساتھ ٹکراﺅ ہوا۔ اس ٹکراﺅ کے دوران ایک انگریز ایس پی گینز فورڈ کو خاکساروں نے بیلچے سے زخمی کر دیا، پھر کیا تھا، انگریز پولیس نے گولیوںکی بوچھاڑ کر دی۔ پھر خاکسار تحریک کے عہدیداروں کی گرفتاریاں ہوئیں، تحریک کو خلاف قانون قرار دے دیاگیا۔ آج کے گوآنتاناموبے کے مانند اس وقت کالا پانی ہوتا تھا، جہاں ہمارے کارکنوں اور عہدیداروں کو چن چن کر بھیج دیا گیا۔ لیکن مفاد پرست افراداپنی جان بچاکر مسلم لیگ میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، یہ وہ ٹولہ تھا جسے صرف اپنامفاد عزیز تھا اور یہ لوگ خاکسار تحریک میںصرف اس لیے موجود تھے کہ انہیں اس بات کاعلم تھا کہ خاکسار تحریک ایک مضبوط جماعت ہے لیکن جب خاکسار تحریک پرابتلاکاوقت آیاتویہ ابن الوقت،مسلم لیگ میں گھس گئے۔ پھر 1940 سے 1947تک کادور ایسا تھا کہ جو لوگ ہماری مخبریاں کرتے تھے، انہیں مختلف القابات، خان بہادر، نواب، سر سے سرفراز کیاگیا، انہیں جاگیریں عطاکی گئیں، اور یہ تمام لوگ بعد میںمسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ بہرحال، خاکسار تحریک نے اپنامشن اور جدوجہدجاری رکھی۔پھر جون 1947میں علامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے دہلی میں خاکسار تحریک کا ایک بہت بڑااجلاس طلب کیاجس میںتین لاکھ خاکساروںنے شرکت کرنا تھی لیکن ریاستی جبر اور رکاوٹوں کے باوجود ایک لاکھ خاکسار جلسہ گاہ میںپہنچنے میںکامیاب ہوگئے۔وہاں علامہ نے اس تحریک کو ختم کرنے کااعلان کیااور خاکساروںکو پیغام دیاکہ آپ لوگ اس قوم میں آٹے میںخمیر کے مانند ہیں، آپ اس قوم میںپھیل جائیں اور شاید آپ کو مستقبل میںکوئی ایسا گروہ یا جماعت مل جائے، جو آپ کوان مشکلوںسے نکال سکے۔یہ تحریک ایک نیم فوجی تنظیم تھی،جسے علامہ نے اپنے آخری خطاب میں ختم کرنے کااعلان کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ان سات سالوں کے دوران ان پر بہت جبر کیاگیا،اور وہی لوگ دوبارہ آگے آگئے جو انگریزوں کے ٹکڑوںپرپلے تھے، ان کے پٹھوتھے۔علامہ کاموقف تھا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پرگیارہ سو سال حکومت کی جبکہ انگریز کو محض ڈیرھ سوسال ہوئے تھے،اس لیے یہ مسلمانوں کاحق تھا کہ وہ ہندوستان پرحکومت کرتے اوراسے اپنے طریقے کے مطابق چلاتے۔علامہ نے کہا کہ انگریز کوکوئی حق نہیں کہ ہمارے گھر میںدیواریں کھڑی کرے کہ ہم اپنے گھر کو بہتر طور پرچلاسکتے ہیں،پھر کرپس مشن آیا جس نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف تجاویز دیںلیکن اس وقت علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کے سواکوئی اور لیڈرایسا نہ تھا جس نے آزاد ہندوستان کاایک ایسا منشور تیارکیاجس پر مشہور ہندوستانی لیڈروں مثلاً جناح صاحب، پٹیل، گاندھی وغیرہ نے دستخط کیے تھے۔یہ ایک ایسا جامع منشور تھا کہ جسے اس وقت اپنایاجاتا تو ہندوستان کانقشہ آج جیسانہ ہوتالیکن انگریزوں کاتو طریقہ ہی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“تھا اور وہ ہندوستان کو تقسیم کرکے دونوں ممالک کو ہمیشہ کے لیے اپناغلام رکھناچاہتے تھے۔
سوال: پاکستان کاقیام 1947میں عمل میں آیااور علامہ صاحب کاوصال 1963 میں ہوا، اس دوران ان کی زندگی آپ کی نظر میںرہی،ان کی سوچ کیاتھی؟
جواب:خاکسار تحریک کے حوالے سے تو انہوں نے اپنی سیاسی تحریک ختم کردی تھی لیکن ان کی شخصیت ایسی فعال اور متحرک تھی کہ وہ قوم کی خدمت کرنے ،اسے اپنی راہنمائی مہیاکرنے کے معاملے پر پیچھے نہیں رہ سکتے تھے، اس لیے انہوں نے اسلام لیگ کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔اس کے تحت جلسے بھی ہوتے تھے اور دیگر سرگرمیاں بھی انجام دی جاتی تھیں ۔علامہ موصوف کایہ موقف تھا کہ اب جبکہ اسلامی ریاست قائم ہوچکی ہے، اب تفرقہ اور جماعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ جماعت بازی کی اس وقت ضرورت تھی جب دشمن ہمارے گھر بیٹھاتھا، اب اگر ہم نے جماعت بازی کی تو سب لوگ اپنی اپنی جماعتوںکے بت بناکربیٹھ جائیں گے اور قوم تقسیم درتقسیم ہوتی جائے گی۔علامہ کی دور اندیشی کااندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ اسلام لیگ کے پلیٹ فارم سے انہوںنے جو بیانات دیے، وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوئے، مثلاً انہوں نے کہا کہ اگر کشمیرکامسئلہ اقوام متحدہ میںلے جایاگیاتو یہ قیامت تک حل نہیں ہو گا۔ اب کچھ ایسی ہی صورت حال موجود ہے۔پھر انہوں نے کشمیر کے متعلق مقدمہ تیارکیااور اقوام متحدہ بھیجا ۔ دنیامیںیہ کہیں بھی نہیں ہوا کہ ایک شخص جس کاحکومت سے کوئی تعلق نہ ہو،کسی مسئلے کے بارے مقدمہ اقوام متحدہ بھیجے۔اس پر انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا لیکن حکومت پاکستان نے علامہ صاحب کو پاسپورٹ اور ویزاجاری کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر پیش گوئیاں بھی سچ ثابت ہوئیں،یعنی انہوںنے 1952 میںکہا تھا کہ اگر حکمرانوں کے لچھن یہی رہے تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہو جائے گا۔ ذاتی لحاظ سے علامہ بہت ہی کامیاب شخص تھے۔ ان کی جدوجہد بہت ہی کامیاب تھی حالانکہ حکومت پاکستان نے ان پر بہت زیادہ جبر کیاتھا اور پاکستان میںوہ زیادہ عرصہ قید میں رہے۔ آخری قید کازمانہ وہ تھا جب وفات سے قبل مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے قتل کے الزا م میں گرفتارکرکے اس عظیم فاضل اور عالم شخصیت کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں حالانکہ انگریز دور میںبھی انہیں کسی کو ہتھکڑیاں لگانے کی جرات نہ ہوئی تھی۔
سوال:آپ کے کہنے کے مطابق علامہ زیادہ جماعتوں کے حق میں نہیں تھے کہ قوم تقسیم ہو جائے گی، کیا ان کی طرف سے اسلام لیگ کا قیام اس سوچ کی نفی نہیں تھا؟
جواب: اگرچہ خاکسار تحریک ختم ہوچکی تھی لیکن اس تحریک کابانی بھی اپنی تمام ترجولانی اور ہمت کے ساتھ راہنمائی کے ساتھ موجود تھا، اور ان کے پیروکار بھی موجود تھے،تو کس طرح یہ عظیم شخصیت قوم کی راہنمائی کے ضمن میںخاموش ہوکربیٹھ جاتی۔دوسری بات یہ کہ اسلام لیگ کامقصد نہ تو انتخاب میںحصہ لیناتھا، نہ اقتدارکی خواہش تھی،بس یہ غرض تھی کہ قوم کی راہنمائی کی جائے اور اسے آگہی مہیا کی جائے۔ قوم کو بتایا جائے کہ اسے اب کیا کرنا چاہیے اور کون سا طریقہ اپناناچاہیے۔اسلام لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک بھی شخص انتخاب لڑنے کے لیے نہیں اٹھا۔ صرف خدمت خلق ہی ہمارانعرہ اور مشن تھا اور اسی اسلام لیگ کے پلیٹ فارم کے باعث یہ تحریک زندہ بھی رہی اور اب مزید پھل پھول رہی ہے۔ہماری تحریک کامقصدریاست کے خلاف سیاست نہیں تھا کہ جس طرح آج کل تماشالگاہواہے۔
سوال:بڑ ے بڑ ے لوگ جنہیں اس دور میں جاگیریں حاصل ہوئیں، سر کے خطاب حاصل کیے، ان کی نسلیں بھی اسی کام میں مصروف ہیں لیکن علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ایک ایسی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے،جنہوں نے اپنی جاگیربھی مزارعوں میں تقسیم کر دی‘ اس کے باوجود علامہ کی سوچ اور ان کے ویژن کوپذیرائی نہ حاصل ہوسکی بلکہ یہی جاگیردارفائدے میں رہے۔ آپ کی نظر میں اس کی وجہ کیاہے؟
جواب:اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی طاقت اور اختیار مفاد پرست لوگوں کے پاس تھا، ہماری دولفظ کی خبر بھی شائع نہیں ہونے دی جاتی تھی۔ہمارااپناایک اخبار تھاجوصرف ہمارے مخصوص حلقوں میں جاتا تھا، حکومت پاکستان نے ہمیشہ ہماری کردارکشی کی۔ انٹرمیڈیٹ کی کتاب میں یہ لکھاتھا کہ قائداعظم پرحملہ کرنے والا شخص خاکسار رفیق صابر تھا حالانکہ وہ شخص ایک پرانا مسلم لیگی تھا۔ یہ لوگ انگریزوں ہی کے پروردہ تھے اور ان کاسلوک انگریزوں سے زیادہ ہم سے بدتر تھا،اس لیے خاکسار تحریک آگے نہیں بڑھ سکی۔اگراور کوئی جماعت ہوتی ،مثلاً جس طرح مصر میں اخوان المسلمون اور ترکی میں نرسی ،ان کی بنیاد قطعی طور پر اسلامی تھی، ان کی حالت کااندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن خاکسار تحریک کو لوگ اب بھی سلام کرتے ہیں کہ یہ ابھی زندہ ہے۔مزید یہ کہ مشرقی خاندان کے ساتھ انتہائی جبر روارکھاگیا،ان کے جوان افراد کوختم کیاگیا۔جب علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کومغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خاں صاحب کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ان کی منقولہ اور غیر منقولہ تمام جائیدادضبط کرلی گئی، وحدت کالونی اور اچھرہ کاتمام علاقہ علامہ کی جائیداد میںشامل تھا۔ ان چونسٹھ سالوں میں ہمیں دبایاگیااور ہم پر غداران وطن کاٹھپہ لگادیاگیا۔ان چونسٹھ برسوں میں قوم نے ان بدبخت سیاست دانوں کواس قدر بھگتاہے کہ اب ہم ایک قدم رکھتے ہیں تو لوگ دس قدم ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔ہماری یہ تحریک بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہم لوگ جلسوں،کانفرنسوں اور ملاقاتوںکے ذریعے عوام میںآگہی پیداکررہے ہیں اور لوگ ہمارے پیغام کو قبول کررہے ہیں۔اب ہماری یہ تحریک صوبائی نہیں بلکہ ملک گیر ہے۔ہمارے سابقہ قائد محترم حمید الدین احمد المشرقی نے سب سے شاندار کارنامہ یہ انجام دیاکہ انہوںنے تحریک میںسے گروہ بندی ختم کرکے وحدت قائم کردی اور اب اس وقت خاکسار تحریک میں ایک قائداور ایک جماعت موجود ہے۔ان کی یہ عظیم شخصیت ایسی فعال تھی کہ اگر ہم ان کی بیس سالہ جدوجہدکومنفی کردیں تو خاکسار تحریک صفر ہوتی۔وہ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر تھے اور انتہائی باصلاحیت شخص تھے اور انہوںنے اپنی پیشہ وارانہ زندگی اور صلاحیتیں خاکسار تحریک کے لیے وقف کردی تھیں۔
سوال:علامہ صاحب نے خاکسارتحریک ختم کردی،پھر اسلام لیگ قائم ہوئی لیکن اس کا مقصد دوسراتھا،بیان یہ فرمایے کہ خاکسار تحریک کااحیاءکیسے ہوا؟
جواب: 1963میں علامہ صاحب کی وفات کے بعد کارکنوں کواحساس ہوا کہ اب یہ تحریک ختم ہوجائے گی،اس لیے دردمند خاکساروں نے 1964 کے اوائل میں راولپنڈی میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں شرکاءکی تعداد پچیس سے تیس ہزار تھی اور اس جلسے میں خاکسار تحریک کے احیاءکافیصلہ کیا گیا۔ میاں بشیر احمد صدیقی کوسربراہ مقرر کیاگیالیکن بد قسمتی سے یہ تحریک گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ پھر جب حمید الدین احمد المشرقی تحریک کے سربراہ مقرر ہوئے تو انہوں نے نہایت مہارت کے ساتھ سب سے پہلے تحریک میں گروہ بندی ختم کی اور سب کوایک پلیٹ فارم پراکٹھاکیا۔ یہ امر باعث صدشکر ہے کہ ان کی وفات کے بعداب دنیابھر کے اکثر ممالک میں خاکسارکارکنوں کی خاصی تعداد موجود ہے اور وہ اپنے اپنے طور پر تحریک کے مشن کے ساتھ وابستہ ہیں اور جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جہاں تک موجودہ سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تنقید کا تعلق ہے، ہمارے نزدیک یہ وقت کاضیاع ہے کیونکہ عوام ان کی حرکتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام مشکلات کاشکارہیں اور حکمران ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ ہم محض لفاظی پریقین نہیںرکھتے بلکہ ہم عمل کے قائل ہیں،ہم بھی ٹی وی چینلوں پربیٹھ کربڑے بڑے دعوے کرسکتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ دھوکابازی او روقت ضائع کرنے والی بات ہے،ہم عملی طور پر خدمت خلق کررہے ہیں۔ہم ان سیاستدانوں اور حکمرانوں پرتنقید میں وقت ضائع کرنے کے بجائے عوام کو درپیش مسائل کاحل ڈھونڈرہے ہیں۔
سوال: حمید الدین احمد المشرقی کی زندگی میں بطورناظم اعلیٰ سندھ کیاسیاسی معاملات آسانی سے طے پاتے تھے؟
جواب:یہ ہمارے ایسے واحد قائد تھے جن کے ساتھ ہر شخص ہروقت بغیر کسی رکاوٹ کے رابطہ کرسکتاتھا بلکہ ان کی انتظامی معاملات پراس قدر گرفت تھی کہ ان کے حکم کے بغیر تحریک میں پتہ بھی نہیں ہلتاتھا۔ ان کاحکم ہر کارکن ہر قیمت پربجالاتاتھا اور اسی کے طفیل، ہماری تحریک اس وقت زندہ ہے اور مزید تازگی حاصل کررہی ہے۔ اگلادور ہماراہے۔
سوال:حمیدالدین احمد المشرقی کی بیس سالہ جدوجہدکے باوجود خاکسار تحریک مزید مختصرہوتی گئی۔کیاوجوہات ہیں؟
جواب:کسی بھی تحریک کودبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں،اس کے کارکن مار دیے جاتے ہیں، مالی وسائل چھین لیے جاتے ہیں،اس کے تمام وسائل پرقبضہ کر لیا جاتاہے، اس صورت حال میں حمیدالدین احمد المشرقی کی موجودگی کے بغیر یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتاتھا کہ ہماری تحریک زندہ رہے گی اور تازگی حاصل کرے گی۔ یہ صرف ان کی ذات کاہی کرشمہ تھا کہ انتہائی جبر کے باوجود ہماری تحریک زندہ اور منظم ہے۔ جماعت میں ٹوٹ پھوٹ اور گروہ بندی کاخاتمہ اس شخص کا ہی خاصا تھا جس کانام حمیدالدین احمد المشرقی تھا۔ اب ہماری تحریک مضبوط بنیادوںپرقائم ہوچکی ہے، ہمارے کارکن موجود ہیں جوتحریک کی خاطر ہر وقت قربانی دینے کے لیے تیار ہیں،میرادعویٰ ہے کہ ہر خاکسار اپنے طور پررقم خرچ کرتا ہے، اسے کسی سے رقم مانگنے کی ضرورت نہیں،اور مجموعی طور پر تحریک نے اپنے لیے چندہ جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا ہوا او رہم کسی کے ٹکڑوں پر نہیں پل رہے۔ ہمارے کارکنوں کی تربیت ایسی ہے کہ ہم لینے کے نہیں بلکہ دینے کے قائل ہیں اور اب جبکہ ہم انتخاب میں کسی طور پرحصہ لینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تویہ نہیں کہ ہم خود انتخاب میںحصہ لے رہے ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مستحق افراد انتخاب میںحصہ لیں اور ہم ان کی معاونت کریں۔ ہم نے اس قوم میں بیداری پیدا کرنا ہے، ہم نے محروم طبقوں کو نئی زندگی دینی ہے۔ آجکل جو انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ ہمارے فکر اور ذہن کے مطابق نہیں ہیں، انقلاب اس طرح نہیں آتے لیکن یہ بات اٹل ہے کہ انقلاب ناگزیر ہے کیونکہ انقلاب تبدیلی کا نام ہے لیکن مجوزہ طریقہ کار ہماری فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ موجودہ سیاستدان انقلاب کے لیے فوج یا سیاسی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن ہم انقلاب کے لیے عوام کو ذریعہ سمجھتے ہیں۔
سوال: ہر تنظیم اور تحریک کا ایک منشور تو ناگزیر ہے لیکن اس کے سربراہ کی شخصیت کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں،آپ جب اس تحریک کی سربراہ مقرر ہوئیں تو آپ کے مقاصداور ویژن کیاتھا؟
جواب:میرامقصد، میراویژن،تحریک کے بانی اور قائدکی سوچ کے عین مطابق،غلبہ اسلام کے سواکچھ نہ تھا۔ حالانکہ حمیدالدین احمد المشرقی مجھ سے چھوٹے تھے، میرے بیٹے کے مانندتھے، لیکن میں انہیں قائد کے نام سے مخاطب کرتی تھی اور میری والدہ بھی انہیں اسی خطاب سے پکارتی تھیں۔
سوال:کیاآپ کاتعلق مشرقی خاندان سے تھا یابعد میںآپ کاتعلق اس خاندان کے ساتھ قائم ہوا۔
جواب:میں اس خاندان میں بہوکی حیثیت سے آئی۔ ہماراخاندان تو لاڑکانہ ،سندھ میں تھا۔ ہمارے آباءو اجدادخاکسار تھے اور ان کی سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمین تھی۔
سوال:آپ نے تحریک کے حوالے سے سندھ میں بہت کام کیااور اب پنجاب کی طرف متوجہ ہیں،کیاسندھ اور پنجاب کے سیاسی کلچرمیں کوئی فرق ہے؟
جواب:جہاں تک سندھ اور پنجاب کے سیاسی کلچرکاتعلق ہے، میں تو یہ کہوں گی کہ پٹھان اور بلوچ سیاستدان بھی اسی کلچرکاحامل ہے،ان کے درمیان چنداں فرق نہیں ہے اور یہ طبقہ پانچ فیصد اشرافیہ پرمشتمل ہے۔اس طبقے میں اب سول اور فوجی بھی شامل ہوگئے ہیں کیونکہ پہلے تو فوجی صرف تنخواہوںپرگزاراکرتے تھے لیکن جب سے انہوں نے اقتدارکے مزے لوٹے ہیں، انہوںنے بھی جاگیریں بنانی شروع کردی ہیں۔جوبھی حکمران آتاہے ،یہ لوگ اس طرح اس کے گرد گھیراڈال دیتے ہیں،جس طرح قائداعظم کے گرداس وقت کے جاگیرداروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔
میں یہاں یہ حقیقت بھی واضح کرناچاہتی ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر بانی ارکان خاکسار تھے جن میںمیرعلی احمد تالپور، رسول بخش تالپور، میرالٰہی بخش سومرو مشہور شخصیات ہیں۔ انہوںنے ہی ذوالفقار علی بھٹو کوآگے بڑھایاتھا کیونکہ ان کوبھٹومیںیہ چیز نظرآئی تھی کہ یہ شخص عوام کی بات کرتاہے ،وہ پہلے شخص تھے جنہوںنے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کاانتظام سنبھالا اور تاریخ کایہ سوال ہے کہ جو شخص عوام کی رائے سے منتخب ہوکرآیا،اسے فوج کی پناہ ڈھونڈنے کی کیاضرورت تھی؟پانچ فیصد اشرافیہ ملک اور عوام کے ساتھ بہت ظلم کر چکے، ان کے بت اب ٹوٹیں گے،خداکانظام اور انتقام بہت سخت ہے جسے مکافات عمل کہتے ہیں۔ اب ان لوگوںکواشرافیہ کی بجائے بدمعاشیہ کہا جاتاہے۔یہ پانچ فیصدلوگ ہیں جنہوںنے پچانوے فیصد لوگوں کو وسائل سے محروم کر رکھا ہے اور پچانوے فیصد لوگوں کے پاس پانچ فیصد وسائل بھی نہیں ہیں۔ چالیس سال سے پیپلز پارٹی نے یہ نعرہ اختیار کر رکھا ہے کہ ”روٹی کپڑا اور مکان، مانگ رہاہے ہر انسان“ یہ کیسا احمقانہ اور مضحکہ خیز نعرہ ہے کیونکہ رزق دینے والی تو خدا کی ذات ہے، پھر عوام نے اپنی کوشش اور جدوجہد سے کپڑا اور مکان حاصل کیا لیکن پیپلز پارٹی کے موجودہ حکمران عوام سے روٹی کانوالہ بھی چھین رہے ہیں۔ اس دور میں عوام کا استحصال اس حدتک بڑھ چکاہے کہ آٹے کی تھوڑی سے مقدارکے لیے کراچی میںسترہ عورتیں ہلاک ہوجاتی ہیں،یہ وہ المیے ہیں جو حکمرانوں نے عوام پرمسلط کررکھے ہیں۔
سوال:مگر اس کے باوجود ضمنی الیکشن میں عوام نے پھر پیپلز پارٹی کو بھر پور ووٹ دئیے۔ کیاوجہ ہے؟
جواب: میرے نزدیک یہ منصفانہ انتخابات نہیںتھے جس کے ثبوت کے طور پرمیں یہ کہناچاہوں گی کہ اس وقت پاکستان کی آبادی کم و بیش اٹھارہ کروڑہے جس میںسے صرف تین چارکروڑحق رائے دہی کے اہل ہیں۔ جب انتخابات ہوتے ہیں تو صرف بیس سے چوبیس فیصدلوگ اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرنے آتے ہیںبلکہ انہیں اٹھا کر لایا جاتا ہے۔ ان چوبیس فیصد لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں کے حمایتی ہیں اور کچھ لوگ آزاد امیدواروںکواپنی حمایت سے نوازتے ہیں،ان حالات میںان انتخابات کو منصفانہ کیسے کہا جا سکتاہے؟یہ سب جمہوریت کی نفی ہے کیونکہ اس نظام میں عوام کو کچلا گیا ہے، ان کی خواہشات کے مطابق امیدوار اسمبلی میںنہیں آسکتے۔ جمہوریت تو وہ نظام حکومت ہے جوعوام کے لیے عوام کے ذریعے ہو لیکن جمہوریت کایہ انداز یورپی انداز ہے جو ہمیں ان خان بہادروں، جاگیرداروںاور جہلاءسے ملاہے،ان جہلانے اس نظام میں عوام کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے، صرف اپنے مفاد کا سوچا ہے۔ اگر ہم متوسط طبقے کی بات کریں تو ایم کیوایم کانام ذہن میں آتا ہے لیکن کراچی میںجیسے انتخابات ہوتے ہیں،وہ سب کو علم ہے کہ پر یزائیڈنگ افسروںک ی موجودگی میں پسندیدہ امیدواروں کی پرچیوں پر مہروں پر مہریں لگائی جاتی ہیں۔یہ توکوئی جمہوریت نہیں ہے ،یہ تو نظام جبرہے جس میں عوام کوہمیشہ اور ہر موڑ پر کچلا گیا ہے۔ یہ محض بدعنوانی اور کاروبار ہے۔
سوال:آپ کے کہنے سے مراد یہ ہے کہ مغربی جمہوریت پاکستان کے مسائل کاحل نہیںہے تو پھرآپ کیاحل تجویز کرتی ہیں؟
جواب:اس کاحل ہمارے پاس علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کے اس فارمولے میں موجود ہے جو انہوں نے آزاد ہندوستان کے منشور میں پیش کیا تھا۔ انہوںنے کہاتھا کہ جمہوری نظام اس وقت تک نافذ نہیں ہو سکتا جب تک اس نظام میں جمہور یعنی عوام کوشریک نہ کیاجائے اور عوامی نمائندے اسمبلی میں نہ ہوں۔اس فارمولے کے مطابق ملک کی تمام عوام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، پانچ فیصد حصہ اشرافیہ، پندرہ فیصدمتوسط طبقہ اور اسی فیصدغریب طبقہ۔ اسی شرح سے اسمبلی میں ان کی نشستیں مقرر کی جائیں۔جس طرح پاکستان میںاقلیتوںکے لیے جداگانہ انتخابی حلقے مقرر کیے گئے ہیں، اسی طرح انتخابات کے لیے عوام کے ان تین حصوں کے لیے بھی جداگانہ انتخابی حلقے مقرر کیے جائیں جہاں مقررہ حصے کے لوگ اپنے نمائندے چنیں اور وہ اسمبلی میں پہنچیں۔صرف اس فارمولے کے تحت ہی اسمبلی میں عوام کی درست اور صحیح نمائندگی ہوسکتی ہے کیونکہ اسمبلی ایک ایسی جگہ ہے جہاں عوامی نمائندے عوام کی فلاح و بہبودکے لیے قانون سازی کرتے ہیں، اگرکوئی اسمبلی یہ فرض اور ذمہ داری انجام نہیں دے سکتی تو کیا ہم اسے اسمبلی کانام دے سکتے ہیں؟جو کچھ اس وقت قومی اسمبلی میں ہورہاہے، جس قسم کی بھی قانون سازی ہورہی ہے، وہ اسی طبقے کے مفادات کے لیے ہورہی ہے جواس وقت اسمبلی میں موجود ہے۔اس لیے یہ عوام کی حقیقی اسمبلی قطعاً نہیں ہے۔ ہماری تو کوشش یہ ہے کہ متوسط طبقے سے عوام کے نمائندے اسمبلی میں جائیں۔علامہ کے افکار کے مطابق عوام کاصحیح نمائندہ وہ ہو سکتاہے جو باکرداراور با عمل ہو، لکھاپڑھاہو،کوئی ایس پی اس کے کردارکی تصدیق نہ کرے بلکہ اہل محلہ اس کے کردار و عمل کی تصدیق کریں۔ ایسے لوگ اسمبلی میںآئیں گے تو حقیقی طور پرعوام کی نمائندگی ہوسکے گی۔
سوال: آپ اس وقت پیپلز پارٹی کے گڑھ یعنی لاڑکانہ میںموجود ہیں اور آپ نے اپنی تحریک کے لیے بہت کام کیاہے۔اس وقت یہاں پیپلز پارٹی کی جو حالت ہے اور طرز سیاست مروج ہے،آپ اسے کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
جواب:درحقیقت اس وقت پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما مثلاً نثارکھوڑو، ایاز سومرو، صفدرعباسی وغیرہ، یہ سب خاکساروں کی اولادیں ہیں، علی گوہر کھوڑو نے لاڑکانہ میں خاکسارتحریک کاپہلا کیمپ کروایا تھا۔ زرداری صاحب کے دست راست، شفقت سومرو کے والد خاکسار تھے۔ یہ سب حقیقتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور پیپلز پارٹی کے لوگ بھی ان حقیقتوں کوقبول کرتے ہیں۔ ہم نے ان کی معاونت اس لیے کی، خاص طور پرقائد محترم حمیدالدین احمد المشرقی نے ان کواپنا تعاون اس لیے مہیاکیاکہ کوئی ایساشخص تو ہوجو پاکستان کومتحد رکھ سکے، اس لیے بے نظیر کی حمایت کی گئی۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے جو لوگ بھی ہمارے پاس حمایت حاصل کرنے کے لیے آئے ، انہوں نے اپنی نسبت خاکسار تحریک کے ساتھ جوڑی۔ مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی کی تمام بانی قیادت کاتعلق خاکسار تحریک کے ساتھ رہاہے۔ میرے کہنے سے مراد ہے کہ خاکسارتحریک کی ایک اپنی اہمیت ہے اور کوئی بھی بدعنوان شخص ہمارے سامنے زبان نہیں کھول سکتا کیونکہ انہیں اپنی اور ہماری اہمیت اور اصلیت کے متعلق علم ہے۔ جب مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہواتو اس وقت ہم نے اکتالیس جلسے کیے تھے کیونکہ یہ ہماری نظر میں غیر قانونی بلکہ ماورائے عدالت قتل تھا۔ ان جلسوں کااثریہ ہوا کہ جب چہلم پر بے نظر بھٹواورفاروق لغاری آرہے تھے تو لوگوں نے انہیں پتھر مارے، اور یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ اپنی مو ت تک بے نظیر بھٹو لاڑکانہ شہر آنے کی جرات نہیں کرسکی تھیں، صرف ہیلی کاپٹرپروہ گڑھی خدابخش آتی تھی اور وہیں سے واپس چلی جاتی تھیں۔ لاڑکانہ میںان کی ہوا خاکسار تحریک نے اکھیڑ دی تھی، اس بات کے اعتراف میں جنگ میں ایک مضمون بھی شائع ہواتھا۔
سوال:اس وقت ملک میں بدعنوانی، مہنگائی، سیلاب اور دیگر مسائل عوام کواپناشکار بنارہے ہیں، حکمران جماعت کہاں کھڑی ہے؟
جواب:میرے خیال کے مطابق اس وقت حکمران جماعت کی حیثیت صفر ہے۔کچے کے علاقے میں جہاں سیلاب سے پہلے بھی ڈاکوﺅں کاراج تھا،آج بھی سیلاب کے بعد کوئی شخص امدادی سرگرمیوں کے لیے ان علاقوں میں نہیں جاسکتا، بعض دفعہ اکا دکالوگ گروہوں کی شکل میں جاتے ہیں اور سیلاب زدہ عوام کو کچھ سامان مہیاکردیتے ہیں۔ بہر حال، اس سیلاب میں جس ادارے نے حقیقی معنوںمیں عوام کی مدد کی، وہ فوج کا ادارہ ہے اور ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اس سے پہلے سیاسی اور فوجی طور پر ان کاکردارجیسا بھی رہا، لیکن اس سیلاب کے دوران انہوں نے عوام کی بھر پور مدد کی۔ان کے علاوہ کوئی حکومتی ادارہ ان جیسی کارکردگی کامظاہرہ نہیں کر سکا۔ میں یہ ضرور کہوں گی کہ 1965 میں انہوں نے ہمارے ملک کے محافظ کاجو کردار نبھایا تھا، وہ اب اس کردارسے ہٹ گئے ہیں اور آج امریکہ کے زیر اثر جوکچھ ہورہاہے، وہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ ہمارے ملکی اور اخلاقی کردار میں اس وقت سے بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوا، جب سے فوجی جنرلوں نے سیاست میں مداخلت شروع کی۔
سوال: آپ کا مرکزی دفتر تو لاہور میں ہے، لیکن صوبائی دفتر لاڑکانہ میں، محسوس ایسا ہوتاہے آپ کے کارکنوںکی تعداد سندھ میںزیادہ ہے؟
جواب: ایسا قطعاً نہیں ہے۔پنجاب میںبھی ہمارے کارکنوںکی تعداد میںدن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔پنجاب کے جن شہروں ،قصبوں میںبھی ہم خاکسار تحریک کاپیغام لے کرگئے، وہاں کے لوگوں نے ہمار۱ پرجوش استقبال کیا اور اپنی حمایت سے ہمیں نوازا۔میںخود حیرت زدہ ہوں کہ ہمیں پنجاب میںبھی اس قدر زیادہ پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔
سوال: مردوں کے اس معاشرے میں ایک خاتون ہونے کے ناطے اپنی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے کسی مشکل کاسامناکرناپڑا؟
جواب: مجھے اس ضمن میں کبھی کسی مشکل کاسامنانہیں کرناپڑا کیونکہ ایک قائد کی حیثیت سے جب میں باہر نکلتی ہوں تو میں اپنی نسوانی حیثیت اپنے گھر میں چھوڑآتی ہوں اور اس طرح مجھے اپنی قیادت کااظہار کرنے میں کسی مشکل کاسامنانہیں کرناپڑتا۔ ہماری تحریک اس قدر پر وقار اور محترم ہے کہ قیادت کرتے ہوئے میںنے خود کو کبھی خاتون محسوس نہیں کیا۔ میںنے خاکسار تحریک کے حوالے سے مختلف کیمپوں میں شرکت کی بلکہ رات کوبھی ہمارے جلسے ہوتے اور کیمپ لگتے تھے مگر ایک خاتون کی حیثیت سے مجھے کبھی کسی مسئلے کاسامنانہیں کرناپڑا۔
سوال: آپ کے کارکن بلوچستان میںبھی تحریک کوآگے بڑھارہے ہیں۔ بیان یہ فرمایے کہ بلوچستان کے مسئلے کایک نکاتی حل کیاہے؟
جواب: اس ضمن میں میراخیال بلکہ میرا یقین ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کایک نکاتی حل،وہاں سرداری نظام کاخاتمہ ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک بلوچستان میں سردار، چودھری، وڈیرے موجود ہیں، وہاں کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ میں تو یہاں تک کہتی ہوں کہ بلوچستان کے علاوہ ملک کے بقیہ تمام صوبوں کے مسائل بھی اسی صورت حل ہوسکتے ہیں،جب وہاں سے جاگیرداری، سرداری، چودھراہٹ کا نظام ختم نہیں ہوتا۔
سوال : بلوچستان کے سرداریہ شکایت کرتے نظرآتے ہیں کہ باقی صوبے ،خاص طور پرپنجاب ان کے ساتھ زیادتی کر رہاہے، اس لیے بلوچستان کے عوام کواپنے حقوق نہیں ملتے جبکہ آپ کا موقف یہ ہے کہ یہ سرداربذات خود ان مسائل کا باعث ہیں؟
جواب:یہ سرداروہ ہیں جن کاعوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بکے ہوئے ہیں، دوسرے ملکوں کی زبان بولتے ہیں، ان کااپناکوئی دین ایمان نہیں اور نہ ہی یہ عوام کے ہمدرد ہیں۔میں ان سرداروں کوبہت اچھی طرح جانتی ہوں، یہ سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور اپنی سرداری قائم رکھنے کے لیے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔
سوال: گزشتہ دنوں بلوچستان میں پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ۔ سندھ میں پنجابیوں کے متعلق عمومی رائے کیاہے؟
جواب:سندھ یا بلوچستان میں علیحدگی جیسی کوئی صورت حال موجود نہیں۔ایک عام سندھی یابلوچی کوان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ایسی باتیں وہ عناصر کرتے ہیں جوباہر کی ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کی حمایت اور پیسے سے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔یہ لوگ را اور روس کے ایجنٹ ہیں ورنہ ایک عام سندھی یابلوچی ایک محب وطن پاکستانی ہے جو علیحدگی کاسوچ بھی نہیں سکتا۔ پنجابیوں کے قتل میں قطعاً بلوچ ملوث نہیں ہیں بلکہ ملک دشمن ایجنسیوں سے منسلک لوگ ہیں۔ میراتو یقین ہے کہ سندھی اور بلوچی پاکستان کے امن کے دشمن نہیں بلکہ اگرآج پاکستان سے امریکہ کابوریابستر اٹھ جاتاہے تو پاکستان میں ہر طرف امن و سکون قائم ہو جائے گا۔ دنیاکاعالمی دہشت گرد، خود امریکہ ہے کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو یورپ میں جرائم پیشہ زندگی بسر کرتے تھے اور وہ آج دنیابھر میں عالمی دہشت گرد کاکردار نبھارہے ہیں۔ بلکہ میںتو یہ کہوں گی کہ ہمارے ملک کی پانچ فیصد اشرافیہ سمیت ، ہمارے حکمران امریکہ کی کٹھ پتلیاں ہیں جو امریکہ کے اشارے پرناچ رہی ہیں۔یہ جو آپس میںمختلف قسم کے میثاق بنا رہے ہیں، آپس میں بچھڑ رہے ہیں، آپس میں مل رہے ہیں، انہیں عوام کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ان کے مفادات بیرون ملک ہیں اوروہ کسی مشکل وقت میں یہاں سے راہ فراراختیار کرسکتے ہیں۔ دراصل، ان لوگوں نے ایسے حالات پیداکردیے ہیں کہ بد قسمتی سے پاکستان، انتشار اور افتراق کے راستے پر گامزن ہے۔
سوال:علامہ مشرقی جیسی کرشماتی شخصیت خاکسار تحریک کودوبارہ کیوں نصیب نہ ہوسکی؟
جواب:آپ جس تناظر میں یہ سوال پوچھ رہے ہیں،میں اس سے بخوبی واقف ہوں، لیکن میں آپ کویہ بتاتی چلوں کی عظیم شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ حضور بنی اکرمﷺ نے خود فرمایا کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن میری امت میں ایسے عالم پیدا ہوں گے جن کا رتبہ بنی اسرائیل کے نبیوں کے برابر ہو گا۔ علامہ نے حضور نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ بھی خود لکھی ہے اور اس شخص کی عظمت کی کیا شان ہو گی جس نے حضور نبی کریمﷺ کی سیرت مبارک میں گم ہو کر انﷺ کی سیرت لکھی۔
سوال: یہ بیان فرمایے کہ بائیں بازوکی تحریکیں بہت عروج پرتھیں،وقت کے ساتھ ساتھ کمزور کیوں پڑگئیں؟
جواب:دراصل، یہ ”ازم“ یعنی سوشلزم، جس میں”کمیون“یعنی چھوٹی سی متحد برادری کاتصور دیاگیاہے، اسلام سے مستعار شدہ ہے۔ان لوگوں کی ناکامی اور زوال کی وجہ یہ تھی ان کے افکار میں روحانیت کاپہلو موجود نہیں تھاجو اسلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ رہی کہ انہوں نے مزدور کی حمایت کرتے کرتے ، اسے روزگار فراہم کرتے ہوئے اس کی تمام ذاتی املاک پرقبضہ کرلیا اورانہیں ریاست کے حوالے کردیا۔ترقی انسانی فطرت ہے اور کوئی بھی شخص، خواہ وہ مزدورہو یاافسر، اپنی اس فطری خواہش پر قابونہیںپاسکتا لیکن ایک پروفیسر اور ایک مزدور کی تنخواہ برابر ہوتی ہے۔اس کے برعکس اسلام اپنے پیروکاروں کویہ رعایت اور سہولت مہیاکرتاہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق دولت کمائیں لیکن جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہو، وہ اسے ضرورتمندوں اور حاجتمندوں میں تقسیم کر دیں۔ اسلام کا نظام معیشت، ایک نہایت شاندار اور مثالی نظام ہے جوزندگی کے ہر پہلوکااحاطہ کرتاہے۔ اس نظام معیشت میںسرمایہ ایک ہاتھ میںمرتکز نہیں ہوتابلکہ معاشرے کے مختلف افراد میں منتقل ہوتارہتاہے ،اس طرح دولت کی صحیح تقسیم عمل میںآتی ہے۔ایک اور وجہ یہ ہے کہ سوشلزم میں جب ایک مزدور کوایک صنعت میں لگایا جاتاہے تواس کے دل میںبھی آگے بڑھنے کی خواہش پیداہوتی ہے جس کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور وہ دل لگی کے ساتھ کام نہیںکرتا۔ اگرچہ چین آج دنیا کی معیشت پر چھاتا جارہا ہے لیکن چین کی بنی ہوئی مصنوعات معیاری نہیںہیں اور یورپی و مغربی مصنوعات کے مقابلے میں کم پائیدار ہیں۔
سوال: یہ بیان کیجیے کہ کیاکمیونزم کااحیاءممکن ہے؟
جواب:میراخیال ہے کہ ایساممکن نہیں کیونکہ اول وآخر اسلام ہی ایک ایسا نظام ہے جو ہر قسم کی خرابیوں سے پاک اور ہر شعبہ زندگی کے لیے کارآمدہے۔ جب ایک مصور ایک تصویربناتاہے تو وہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق رنگ بھرتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جب اپنے نائب کو اس دنیامیں بھیجا اور ساتھ ہی روحانی منشور بھی قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا تو اسے علم تھا کہ یہ کن لوگوں کے لیے فائدہ مندہے۔آخر کار دنیاکی نجات اسی نظام میں ہے۔اگر ہم یورپ اور مغرب کی ترقی کی طرف دیکھیں تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے وہ اقدار اپنالیں جن کا اللہ تعالیٰ نے خاص طور پرقران کریم کی صورت میں امت مسلمہ بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے حکم دیا، یعنی جھوٹ نہ بولو، کم نہ تولو،ملاوٹ نہ کرو، سچ بولو، ظلم نہ کرو وغیرہ، اسی لیے یہ اقوام ترقی کرگئیں کیونکہ انہوں نے عملی طور پر ان اقدار کو اپنا لیا اور ہم زوال پذیر ہو گئےکیونکہ ہم نے عملی طور پران اقدار کو ترک کر دیا۔ اس میںاسلام کاکوئی قصور نہیں بلکہ ہمارااپناقصور ہے۔ ہمارے صدر سے لے کر ایک چپراسی تک بدعنوانی میں ملوث ہے تو پھر ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ ہم دنیائے عالم میںترقی کر سکیں۔ ان کی حکمت قران حکیم کے سوا کچھ نہیں ہے، انسانیت کے تمام مسائل کاحل اس کتاب میںہے۔ہم نے اس کتاب کو مدرسوں میں رٹنے کے لیے لگا دیا، جزدان میں لپیٹ کر ایصال ثواب کے لیے مختص کر دیا لیکن اس کتاب پر عمل ان مغربی اور یورپی اقوام نے کیا جو صاحب قرآن کو نہیں مانتے۔ ہم نے اس کتاب پر عمل عرصہ ہوا چھوڑ دیا، اس لیے دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔
سوال: اگر گڈ گورننس کوسامنے رکھاجائے تو موجودہ حکومت کی ساکھ آپ کے سامنے ہے جبکہ حزب اختلاف کی طرف سے کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھ رہی،آپ کے خیال میںحالات کس طرف جارہے ہیں؟
جواب: اگر حکومت اور حز ب اختلاف کے حوالے سے حالات پر نظرڈالی جائے تو ہماراملک اندھیرے کی طرف جارہاہے کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے لیے کچھ نہیں کررہے۔پاکستان اور پاکستان کے عوام کوبچانے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے،یہ لوگ غیر ملکی آقاﺅں کے مفادات کی جنگ ہم پرٹھونسے ہوئے ہیں۔ اب امریکہ کوئٹہ پرڈرون حملوںکی تیاری کر رہا ہے، کوئٹہ ہمارے صوبے کا دارالحکومت ہے اورامریکہ کی اس خواہش کے سامنے ہماری سلامتی اور خودمختاری چہ معنی دارد؟ تو پھر ہم کیا سوچیں کہ ہمارے یہ حکمران ہمیں کہاں لے کرجارہے ہیں۔ ہمارے حکمران،ان کی اولادیں ، ان کے مال و اسباب،بیرون ملک ہیں، انہیں تو کوئی فکر نہیں،بلکہ فکر تو ہمیں ہونا چاہیے ،ہم جو اس ملک کے عوام ہیں کہ ہم کدھر جائیں گے۔
ایک اور دلچسپ بات میں آپ کوبتاتی ہوں کہ امریکی صدرکے انتخابات کی مہم میں جو ادارے شریک ہوتے ہیں ،وہ سب یہودی ہیں جن کاعالمی معیشت اورمیڈیاپر قبضہ ہے،ان کے اشاروں پرامریکی صدربیانات دیتاہے،وہ خود یہودیوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی ہے اور دنیائے عالم کو یہودیوں نے اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا ہے۔ امریکہ کااپنانظام بھی زوال پذیرہے اور یہودی امریکہ سے اپناہاتھ کھینچ لیں تو امریکہ صفر ہے۔
سوال:حکومت پیپلز پارٹی ہی کی ہوتی لیکن زرداری صدر نہ ہوتے تو کیا حالات بہتر ہوتے؟
جواب: قطعی نہیں!جو بھی صدر ہوتا،وہ یہی کرتا کیونکہ ہمارے حکمران امریکی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ فرض کریں نواز شریف، عمران خان یا اور کوئی اچھا شخص حکومت میں آجائے تو پھر بھی حالات بہتر نہیں ہوں گے کیونکہ یہ لوگ امریکہ کے نافذ کردہ نظام سے باہر نہیں نکل سکتے، جب تک یہ نظام جڑ سے نہ اکھیڑا جائے گا، حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔
سوال: کیا آپ کے نقطہ نظرکے مطابق مغربی نظام جمہوریت کوختم کیاجائے اور جو آپ نے فارمولاپیش کیا،وہی ہمارے مسائل کاحل ہے؟
جواب:قطعی ایساہے۔ہم اپنے ملک کے خود مالک ہیں،اپنے کارخانے ہم چلارہے ہیں، اپنے تعلیمی اداروں کاانتظام ہم خود کررہے ہیں، زراعت میں ہم کام کررہے ہیں، مختلف اداروں کا انتظام ہم کررہے ہیں،ہمارے عوام کہاں نہیں ہیں؟ ہر جگہ موجود ہیں، محنت کررہے ہیں،ہم پچانوے فیصد محنت کش ہیں،ہمیں ان حکمرانوں نے دبایا ہواہے، لیکن آخر ایک دن ہم بیدارہوں گے اور اپنا حق حاصل کرکے رہیں گے۔
سوال: کیامستقبل قریب میں اس پانچ فیصد سیاسی اشرافیہ سے نجات ممکن ہے؟
جواب:ایساممکن ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ سے مایوس اور ناامید نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ایسی کوئی سوچ رکھتے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود نہیں ہے۔کیا کروڑوں لوگ ان حکمرانوں کے مظالم کے تلے چیختے ہوئے خدا کو نہیں پکارتے؟ آخر ان ظالموں کو ختم ہونا ہے کیونکہ انقلاب دستک دے رہا ہے، جو لوگ اس وقت خودکشیاں کر رہے ہیں، وہی لوگ انقلاب کے داعی ہوں گے، وہی لوگ اٹھیں گے، ان کے ہاتھ ظالموں کے گریبانوں تک پہنچیں گے۔ اگر یہ اشرافیہ طبقہ انقلاب کی دستک سن رہا ہے تویہ اس آنے والے طوفان کوبھانپ رہے ہیں،اس لیے اب ہر شخص انقلاب کی دہائی دے رہاہے۔
سوال: آپ مستقبل میں کیالائحہ عمل اختیار کرناچاہیں گی کہ خاکسار تحریک کوزیادہ سے زیادہ کارکن میسر آئیں اور یہ تحریک آگے بڑھے؟
جواب: ہمارا تو یہ نظریہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ افراد میں سے اگر پانچ کروڑ افراد تحریک سے وابستہ ہو جائیں تو ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ ہم نے تو اپنے فارمولے کو حسابی شکل میں ترتیب دیا ہوا ہے کیونکہ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ایک ریاضی داں تھے۔ ہم اسی حسابی فارمولے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس موقع پر میں علامہ صاحب کی ایک تحریر کا حوالہ دینا چاہوں گی جو انہوں نے قران پاک کی تفسیر کے دیباچے میں لکھی تھی کہ کوئی وجہ نہیں اسلام دنیاکے تمام ادیان پر غالب نہ آجائے۔ اسلام سے ان کی مراد عدل و انصاف تھی، یہ مولویانہ اسلام نہیں تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ شرط صرف یہ ہے کہ ہمارے درمیان صرف ایسے پچاس افراد پیدا ہو جائیں، جن کا درجہ ایمان، ہمارے صحابہ کرام ہے برابر ہو۔ اس تمام نظام کو الٹنے کے لیے صرف پچاس اہل ایمان افراد ہی کافی ہیں۔ متقی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، اور اس طرح کے لوگ ہماری تحریک میں موجود ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں اور حمیدالدین احمد المشرقی کی صورت میں ہر شخص ڈھل رہا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک ہدف دیا تھا، اور ہم اس ہدف کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
سوال: حمیدالدین احمد المشرقی کی وفات کے بعد تحریک کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
جواب: جب ان کی وفات ہوئی تو ہرشخص سکتے میں تھا لیکن ان کی تدفین تک ایسا معلوم ہورہاتھا کہ ہر شخص میں ایک نئی روح اور امنگ پیداہوچکی ہے۔ان کے سوئم پرنواب زادہ منصورعلی خاں بھی آئے ہوئے تھے۔ حمیدالدین احمد المشرقی کی وفات کے ایک ڈیڑھ ہفتہ بعد پی ڈی ایف کاایک جلسہ ایبٹ آباد میں ہوا تھا، اس میں تمام خاکساروں نے اپنی مخصوص جولانی اور جذبے کے ساتھ شرکت کی تھی۔
سوال:حکومت توانائی کے بحران پرقابو پانے کے لیے رینٹل پاورکوبہت ترجیح دے رہی ہے، آپ کے خیال میںپاکستان کے توانائی کے مسائل کاحل کیاہے؟
جواب:اس طرح تو ہم اپنے پاﺅں پرخود کلہاڑی ماررہے ہیں،ایسے طریقوں کے ذریعے ہمیں ایسا جکڑاجارہاہے کہ ہم سانس لینے کے قابل بھی نہ رہیں۔ ہمارے پاس تھرمیںاس قدر کوئلہ موجود ہے کہ آٹھ سو سال تک ہماری ضروریات پوری کرسکتاہے، ہمارے ملک میں شمسی توانائی اس قدر زیادہ پیدا ہو سکتی ہے، ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحرابھی ہیں اور سمندر بھی ،تمام بلوچستان معدنی وسائل سے بھرپور ہے اسی لیے امریکہ کی اس پرنظرہے، القائدہ وغیرہ ،سب تصوراتی باتیں ہیں، اصل ہدف ہماراملک ،ہمارے صوبے ہیں جہاں بے پناہ معدنی وسائل موجود ہیں۔ دنیاکاسب سے قیمتی عنصر یورینیم، ہمارے پاکستان میںموجود ہے،ہمارے پاس تیل وافر مقدار میں موجود ہے، تو پھر ہم کیوں دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ امریکی جنگ، ہمارے وسائل پرقبضہ کرنے کی جنگ ہے۔مغربی اور یورپی ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میںاس قدر ترقی کرچکے ہیں کہ وہ سیلاب اور زلزلے بھی مصنوعی طور پرواقع کرنے کے قابل ہوچکے ہیں اور اس طرح ہمارے وسائل پرقبضہ کرنے کی خاطر یہ سب تباہیاں رونماکرتے رہتے ہیں۔ بھارت پاکستان دشمنی میں ان کادست راست ہے۔ جب گلیشرپگھلتے ہیں تو ہمارے دریاﺅں میں سیلاب آتا ہے، برہم پترا، گنگاجمنا میں سیلاب کیوں نہیں آتا؟ ہم ان کی مکاریوںسے ناواقف ہیں، ہم نے ٹیکنالوجی سے ہاتھ چھوڑ کر خود کو جاہل بنا لیا ہے۔ بڑے ڈیمز ہمارے مسائل کا حل نہیں کیونکہ پانچ سے دس سالوں میں ان میں اس قدر گار پیدا ہو جاتی ہے کہ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہوجاتی ہے، اس لیے ہمیں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے چاہئیں، ہمیں برساتی نالوںپر بندبنانے چاہئیں تاکہ ہم پانی کاذخیرہ کرسکیں۔جہاں تک کالاباغ ڈیم کاتعلق ہے، اسے تو چاروں صوبوںکی اسمبلیوںنے مسترد کر دیا ہے، پھر ہم اس کودوبارہ کیوںزندہ کررہے ہیں جبکہ ہمارے پاس اس قدر پانی بھی نہیںہے کہ ہم اس قدر بڑاڈیم بنائیں۔
سوال: ریفارمڈجی ایس ٹی پرایم کیوایم اور اے این پی علیحدہ ہوتی نظرآرہی ہیں۔کیااس کاکوئی متباد ل ہے کہ معیشت کوکوئی نقصان نہ پہنچے، دوسرے اس کے باعث حکومتی اتحاد پر کیا اثرات مرتب ہوتے نظرآتے ہیں؟
جواب: یہ سب کچھ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کاشاخسانہ ہے کہ دنیامیں جہاں جہاں بھی آئی ایم ایف نے قرضوں کاجال پھیلایاہے، ان ممالک کے عوام اس قسم کے ظالمانہ ٹیکسوںکی زد میںآئے ہیں۔ان کے کہنے کے مطابق ہی ہمارے حکمران ہمارے غریب عوام پرٹیکس لاد رہے ہیں حالانکہ ٹیکس ان پر نافذہوناچاہیے تھا جو دولت مند ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے کیا ہی اچھی بات کہی کہ سیلاب زدہ علاقوںمیںبجلی اور گیس کے بل معاف ہیں،یہ عوام کے ساتھ کیساعجیب مذاق ہے، کیا آپ یہ ٹیکس معاف کرکے ان پر احسان کر رہے ہیں۔ واپڈا کے معمولی رقم کے بل کی عدم ادائیگی پر لوگوں کو الٹا لٹکا دیا جاتا ہے لیکن اربوں روپے کھاجانے والی اشرافیہ کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ اب دنیا مزید ترقی کر رہی ہے، اس لیے ہماری زراعت کو بھی صنعت کا درجہ دیا جائے، اس پر بھی ٹیکس نافذ کیا جائے۔ بڑے بڑے زمیندار تو پیٹ بھر کر کھا رہے ہیں لیکن ان کے مزارعوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، لہٰذا اس طبقہ اشرافیہ پر ٹیکس نافذ ہونے چاہئیں۔
مزید میں یہ کہنا چاہوں گی کہ جب تک ہمارے ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جاتا کہ ہم اپنی دولت باہر کے ممالک میں نہیں بھیج سکتے تو اس وقت تک ہمارے وسائل دوسروں کے قبضہ میں جاتے رہیں گے۔ اگر عرب دنیا بلکہ اسلامی دنیا اپنے اثاثے اور دولت، ان مغربی اور یورپی ممالک سے نکال لے تو اسلامی دنیا کو بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی اور تمام اسلامی دنیا بشمول ہم اپنے وسائل میں خود کفیل ہو جائیں گے۔
سوال: ایم کیو ایم جاگیرداری کے خلاف نعرے لگا رہی ہے، کیا عملی طور پر وہ کسی کردار کا مظاہرہ کرپائے گی؟
جواب:ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن یہ بات الگ ہے کہ اگر ان کے اپنے مفادات پرکوئی ضرب پڑے تو وہ ایسے نعرے لگانے پر مجبور ہو جائیں۔ اپنے مفادات پر ضرب پڑنے کی صورت میں کسی نہ کسی مسئلے کو سامنے لا کر اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے لیکن یہ تغیر و تبدل اس وقت ہو گا جب ان کے غیر ملکی آقا ایسا چاہیں گے، جب وہ ان کے نعروں اور مطالبات سے اکتا جائیں گے اور کوئی دوسری کٹھ پتلی ڈھونڈیں گے۔
مرکزاعلیٰ خاکسارتحریک:-34ذیلدارروڈ،اچھرہ ،لاہور
٭فون نمبرز:37555251-37535116
٭فیکس:(042)37587394
http://khaksartehrik.org/ Email : media.cell@khaksartehrik.org
http://www.facebook.com/group.php?gid=309926669380