خاکسار تحريک اور ن۔ م۔ راشد
احمد نديم قاسمی
يہ آج سے کم و بيش چاليس برس کا ذکر ہے۔ ميں نے راولپنڈی کی جامع مسجد ميں
مسلمانوں کا اتنا بڑا ہجوم ديکھا کہ اس وقت تک ميرے لئے اتنے بڑے ہجوم کا
تصور بھی محال تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ آج اس اجتماع سے حضرت علامہ مشرقی
خطاب فرمائيں گے۔ ميں حضرت علامہ مشرقی کے نام سے متعارف تھا اور
خاکسار تحريک اور خاکی وردی اور بيلچے اور چپ راست سے بھی بے خبر
نہيں تھا۔ مگر مجھے يہ اندازه نہيں تھا کہ حضرت علامہ مشرقی کی تحريک اتنی
ہمہ گير ہوچکی ہے۔ مسجد سے باہر سڑک پرميں نے علامہ کی تقريرسننے کی
کوشش کی مگر بازار کا ہنگامہ بار بار حائل ہو جاتا۔ اس لئے ميں نے مسلمانوں
کے اس عظيم اجتماع کا توانائی بخش تصورسميٹا اور وہاں سے چلا آيا۔ پھر چند ہی
برس بعد جب ميں اپنے گاؤں ميں تھا ميری ملاقات ايک خاکسار سے ہوئی ۔ يہ سن
کرکہ ميں اپنے گاؤں ميں مقيم ہوں وه چند ميل کا فاصلہ پيدل طے کرکے ميرے ہاں
تشريف لائے۔ گرميوں کا موسم تھا اس لئے ميں پانی کا انتظام کرنے کو اٹھا۔ وه
ميرا اراده بھانپ گئے اور بولے:
”پياس تومجھے ہے مگرميں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ اگر آپ نے شربت پلايا
توآپ کو ميری طرف سے ايک آنہ قبول کرنا ہوگا اور اگر ساده پانی پلائيں گے
توبھی اس علاقے ميں پانی اتنی مشکل سے فراہم ہوتا ہے کہ ميں يہ پانی مفت نہيں
پيوں گا۔ آپ کواس کے ايک دو پيسے لينے ہوں گے“۔
ميں نے يہ سنا تودم بخود ره گيا۔ مہمان نوازی کی صديوں کی روايات پر اس کاری
ضرب نے مجھے چکرا ڈالا ميں نے عرض کيا، ”اگرميں آپ کوپانی پلانے کے دام
وصول کروں تويہ ميرے لئے باعث شرم ہے۔“
وه بولے، ”اوراگرميں دام ادا کئے بغير پانی پيوں توان احکام کی خلاف ورزی کے
مترادف ہے جوحضرت علامہ مشرقی نے ہم خاکساروں کے نام جاری فرمائے
ہيں۔“
ميں نے کہا ”مگرميں پانی کے دام وصول کرنے سے معذرت چاہتا ہوں“۔
حضرت علامہ مشرقی کے ان احکام کے پيچھے يقينا کوئی فلسفہ کار فرما ہوگا۔
مگراس وقت يہ فلسفہ ميرے لئے قطعی طور پر ناقابل فہم تھا۔ دلچسپ بات يہ ہے
کہ ميرے يہ مہمان عزيز اردو کے نامور شاعر ،ن۔م۔راشد تھے۔ ان دنوں راشد کے
والد سرگودھا کے ڈسڑکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے اور ہمارے پہاڑی علاقے ميں
مقيم تھے جہاں کی آب وہوا ميدانوں کے مقابلے ميں معتدل ہوتی ہے۔ يہ واقعہ
خاکسارتحريک سے ميری ابتدائی ”ڈس الوژنمنٹ“ کا ايک بہت بڑا سبب تھا۔
حضرت علامہ مشرقی کا سامنا
بعد ميں جب ميں نے حضرت علامہ مشرقی کے خطبات کا مطالعہ کيا تواگرچہ ميں
ان ميں قوت اورحشمت اورخدمت اورحرکت اورتوانائی کے پيغام سے متاثر ہوا۔
مگرعلامہ نے جہاں بھی مسلمانوں کے زوال کے سبب اورثبوت کی نشاندہی
فرمائی‘ شاعروں اوراديبوں کو بھی ساتھ ہی دھرليا۔ ميں يہ سب کچھ پڑھتا تھا تو
ايک شاعر اور اديب کی حيثيت سے بے قرار ہو جاتا تھا۔ دراصل ميں بھی اپنے فنی
نقطہ نظر کو قوت اور حشمت اور خدمت اور حرکت اور توانائی سے عبارت
سمجھتا تھا اس لئے دوسرے زوال پسند گروہوں ميں اہل قلم کی شموليت کوعلامہ
کی زيادتی پرمحمول کرتا تھا۔ پھر آج سے کوئی 32 سال پہلے جب ميں ”پھول“ اور
”تہذيب نسواں“ کا ايڈيٹر تھا ميں نے اچھره ميں ايک مکان کرائے پر ليا۔ ايک روز
گھر سے نکلا تو چند ہی قدم کے فاصلے پر ايک اور مکان کے دروازے ميں
مجھے ايک شخص کھڑا نظر آيا۔ جس کی صورت حضرت علامہ مشرقی کی
تصويروں سے بہت مشابہہ تھی ميں نے محلہ کے ايک دکاندار سے اس شخص کا
نام پوچھا تومعلوم ہوا کہ يہی علامہ مشرقی ہيں اور يہی ان کا رہائشی مکان ہے
کچھ عجيب سا احساس ہوا کہ ميں اتنی مشہور و معروف شخصيت کا پڑوسی ہوں
اس شخص کی عظمت مجھ پر بعد ميں واضح ہوئی فی الحال ميں ان کی صرف
شہرت سے مرعوب تھا۔
چند روز بعد لاہور ميں زبردست بارش ہوئی ميں دفتر سے گھر لوٹ رہا تھا ۔ علامہ
صاحب کے مکان کے سامنے سے گذار تو ايک مسلمانہ آواز آئی۔ ”اے نوجوان!
ادھرآؤ۔ ميرے گھرميں پانی گھس آيا ہے اسے باہر نکالنے ميں ميری مدد کرو!“۔
علامہ صاحب کا لہجہ مجھے بھلا نہ لگا وه اگر نرمی سے بھی کہتے تو مجھے
انکار کی مجال کہاں تھی۔ ميں اندر گيا تو پندره بيس افراد بالٹياں بھر بھرکرصحن
سے پانی باہر گلی ميں انڈيل رہے تھے۔ ميں نے بھی ايک بالٹی سنبھالی اورکام ميں
لگ گيا ايک شخص صورت آشنا سا لگا باتوں باتوں ميں ميں نے اس سے علامہ
صاحب کے لہجے کی شکايت کی تو وه بولا۔ ”ميں بھی آپ کی طرح خاکسار نہيں
ہوں۔ علامہ صاحب کا صرف محلہ دار ہوں مجھے بھی علامہ صاحب نے بالکل
اسی طرح بلايا جيسے وه خاکساروں کے کسی جيش کو ”کاشن“ دے رہے ہوں مگر
مجھے اس لہجہ کا پس منظر معلوم ہے، يہ بہت عظيم آدمی ہے۔ اس کا اصلاح کا
فلسفہ بڑا جاندار، بڑاحقيقت پسندانہ ہے۔ يہ شخص بڑے بڑے عہدے کوٹھکرا کر
يہاں ہمارے پاس اچھرے ميں آ بيٹھا ہے مگر قوم نے اس کی کما حقہ قدر نہيں کی۔
اس کی تحريک کی خاکی وردی اور اس کے بيلچے کے مفہوم کو نہيں سمجھا يہ
جتنا بڑا عالم دين ہے اتنا ہی بڑا رياضی دان ہے، اتنا ہی بڑا ماہر تعليم ہے، اتنا ہی
بڑا سائنس دان اور فلسفی ہے اور بحيثيت مجموعی قوم اس کی عظمت اور اہميت
سے بے خبر ہے۔ اس صورت ميں اس کے لہجہ ميں تلخی کا پيدا ہونا قدرتی امر
ہے اس لہجے ميں نرمی ہم لوگ ہی پيدا کرسکتے ہيں کہ اس کے پيغام کوسمجھيں
اور جو راه پخار اس نے اپنے لئے منتخب کی ہے۔ اس پر اسی کے ہم قدم چليں اور
يوں صديوں کے جسمانی اور ذہنی اور روحانی جمود اور پوست کے خولوں کو
توڑ ڈاليں اور سيدھے سادے اور آسان مذہب کے سچے اور اچھے پيرو بن جائيں۔
کيا تم نے ”تذکره“ پڑھا ہے؟
سراسرعمل‘سراسرجہاد
ميں نے”تذکره“ نہيں پڑھا تھا، سو اس شخص نے مجھے علامہ صاحب کيی يہ
تصنيف پڑھنے کی ترغيب دی تب ميں نے اسے پڑھا اور مجھ پر انکشاف ہوا کہ
علامہؒ صاحب تو بے حد دو ٹوک قسم کے انسان ہيں کوئی لگی لپٹی اٹھا رکھنا انہيں
آتا ہی نہيں۔ وه انگريز ہو يا ہندو يا سرمايہ دار ہو يا ملا ہو يا شاعر ہو يا اخبار نويس
ہو وه سب کے بارے ميں سچ کہتے ہيں اور سب کے سامنے سچ کہتے ہيں۔ اتنا سچا
اتنا بے ساختہ آدمی کسی نے پہلے کاہے کو ديکھا تھا چنانچہ سب سے بڑی”اے
ہے۔ تذکرے کے بعد مجھے علامہ صاحب کی جو بھی Abnormality“ بنار ميلٹی
تحرير ہاتھ لگی اسے پڑھ ڈالا اور ميں اس نتيجہ تک پہنچا کہ علامہ صاحب
توعمل، سراسر عمل، جہاد، سراسر جہاد کے مبلغ ہيں ان کا فلسفہ حيات جاندار
اور قوت بخش ہے شاعری کو انہوں نے محض اس لئے برا کہا کہ جو شاعری
بے عملی، انفعاليت، مايوسی اور بے معنويت کا پرچار کرتی ہے وه يقينا گردن
زدنی ہے جب وه کہتے ہيں کہ:
”ہم توايک مساوی، غيرمتعصبانہ، روا دارانہ مگر غالب نظام قائم کرنا چاہتے
ہيں“۔
تواس غيرمبہم اعلان ميں انسان کا گزشتہ ڈيڑھ ہزارسال کا تہذيبی اور روحانی اور
عمرانی اور مشينی ارتقاء بول رہا ہوتا ہے۔جب وه فرماتے ہيں کہ:
”اس نظام کی بنياد نيکی سعی وعمل اور عدل پر ہوگی“۔
تو وه دراصل صحيح اور سچی قرآنی تعليم کوعام کر رہے ہوتے ہيں وه مسلمانوں
کے کردار پر تنقيد کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ:
”مسلمان خدا کی وحدانيت کا ہزار قائل سہی مگر جب وه کسی ترغيب ميں آکر کوئی
گناه کرتا ہے تو توحيد کے تصور سے ٹوٹ کر ره جاتا ہے کيونکہ اس طرح وه
اس جذبے کی پرستش کا بھی مجرم ہے جس نے اسے گناه پر اکسايا۔ حالانکہ
پرستش توصرف خداکی کرنی چاہيے۔ اور خدا لا شريک ہے“۔
اس مقام پرعلامہ مشرقی اور علامہ اقبال کتنے متحد نظر آتے ہيں۔ اقبال کا ارشاد:
باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشريک ہے
شرکت ميانہ حق و باطل نہ کر قبول
يہ جتنی کھری باتيں ہيں اوراگر ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کی مکمل
اصلاح چاہتے ہيں تو ان باتوں کو اپنا معيار حيات اور اپنا مقصد حيات تسليم کرنا
ہوگا۔ اس کے بارے ميں علامہ مشرقی کے اس ارشاد کو مسلسل عام کرنے کی
ضرورت ہے کہ:
”اسلام تو ايک ساده اورغير پچدار مذہب ہے اور چونکہ ارباب غرض نے اسے
پچدار بنا دا ہے اسی لئے اس کے احکام پرعمل رسمی ہو کر ره گيا ہے“۔
اسی طرح حکومت کے بارے ميں علامہؒ صاحب کی يہ کسوٹی کتنی ساده مگر
سچی ہے کہ:
”کسی ملک کی حکومت کے اچھا ہونے کا معيار اس ملک کے عوام کی خوش
حالی ہے“۔
سوچنے کی ٹيس
يہ سب کچھ کہنے کے بعد جب حضرت علامہ مشرقی يہ کہتے ہيں”کہ ميں تو
مسلمان ميں”سوچنے کی ٹيس“ پيدا کرنا چاہتا ہوں، تو ان سيدھے سادے الفاظ ميں
کتنا درد کتنا خلوص ہے۔ مثبت اور ارتقائی انقلاب انہيں قوموں کے ہاں رونما ہوتے
ہيں جن کے افراد کے دل ودماغ سوچنے کی ٹيس سے آشنا ہوں۔ آج علامہ صاحب
زنده ہوتے تو ميں کسی نہ کسی طرح ان کی خدمت ميں حاضر ہونے کی جرات کر
کے يہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کرتا کہ اس ملک کے بہت سے شاعروں،
بہت سے اديبوں اور بہت سے اہل قلم کا کل سرمايہ يہی”سوچنے کی ٹيس“ ہی تو
ہے۔ انتقال سے باره برس پہلے علامہ مشرقی نے دنيا بھر کے سائنس دانوں کو ہمہ
گيرانسانی فلاح وبہبود کی خاطر، قرآن مجيد کی تعليمات کے مطابق تسخيرکائنات
کا جو پيغام بھيجا تھا وه ميرے نزديک جديد علوم کے جرات مندانہ استعمال کا ايک
شہ پاره ہے۔ يہ پيغام ”انسانی مسئلہ“ کے نام سے پمفلٹ کی صورت ميں اشاعت
پذير ہوچکا ہے اس ميں انسانی عظمت کا اعلان اتنے تيقن سے کيا گيا ہے اورخلا
کی تسخير کے سلسلے ميں ايسے عالمانہ اور ماہرانہ اشارے ديئے گئے ہيں کہ
علامہ صاحب کے فکر کی رسائی پر حيرت ہوتی ہے۔ خلاؤں کو تسخير کرنے
والے اگرعلامہ صاحب کی اس تحرير کو اپنا منشور بنا ليں تو وه چاند اور مريخ
پر سے کره ارض پر موت کی شاعيں ڈالنے کی خدشات ظاہر کئے جارہے ہيں ان
کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ بڑی قوميں وہی ہوتی ہيں جو اپنے
بڑوں کو ياد کرتی ہيں اور اپنے عمل سے ان يادوں کو تازه رکھتی ہيں۔ ميں اس
امر پر اظہار مسرت کئے بغير نہيں ره سکتا کہ پاکستانی قوم بھی ايک بڑی قوم
ہونے کے ثبوت فراہم کرنے لگی ہے۔
Al-Islah, Lahore, August 23-29, 1994, p. 15-18
احمد نديم قاسمی
يہ آج سے کم و بيش چاليس برس کا ذکر ہے۔ ميں نے راولپنڈی کی جامع مسجد ميں
مسلمانوں کا اتنا بڑا ہجوم ديکھا کہ اس وقت تک ميرے لئے اتنے بڑے ہجوم کا
تصور بھی محال تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ آج اس اجتماع سے حضرت علامہ مشرقی
خطاب فرمائيں گے۔ ميں حضرت علامہ مشرقی کے نام سے متعارف تھا اور
خاکسار تحريک اور خاکی وردی اور بيلچے اور چپ راست سے بھی بے خبر
نہيں تھا۔ مگر مجھے يہ اندازه نہيں تھا کہ حضرت علامہ مشرقی کی تحريک اتنی
ہمہ گير ہوچکی ہے۔ مسجد سے باہر سڑک پرميں نے علامہ کی تقريرسننے کی
کوشش کی مگر بازار کا ہنگامہ بار بار حائل ہو جاتا۔ اس لئے ميں نے مسلمانوں
کے اس عظيم اجتماع کا توانائی بخش تصورسميٹا اور وہاں سے چلا آيا۔ پھر چند ہی
برس بعد جب ميں اپنے گاؤں ميں تھا ميری ملاقات ايک خاکسار سے ہوئی ۔ يہ سن
کرکہ ميں اپنے گاؤں ميں مقيم ہوں وه چند ميل کا فاصلہ پيدل طے کرکے ميرے ہاں
تشريف لائے۔ گرميوں کا موسم تھا اس لئے ميں پانی کا انتظام کرنے کو اٹھا۔ وه
ميرا اراده بھانپ گئے اور بولے:
”پياس تومجھے ہے مگرميں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ اگر آپ نے شربت پلايا
توآپ کو ميری طرف سے ايک آنہ قبول کرنا ہوگا اور اگر ساده پانی پلائيں گے
توبھی اس علاقے ميں پانی اتنی مشکل سے فراہم ہوتا ہے کہ ميں يہ پانی مفت نہيں
پيوں گا۔ آپ کواس کے ايک دو پيسے لينے ہوں گے“۔
ميں نے يہ سنا تودم بخود ره گيا۔ مہمان نوازی کی صديوں کی روايات پر اس کاری
ضرب نے مجھے چکرا ڈالا ميں نے عرض کيا، ”اگرميں آپ کوپانی پلانے کے دام
وصول کروں تويہ ميرے لئے باعث شرم ہے۔“
وه بولے، ”اوراگرميں دام ادا کئے بغير پانی پيوں توان احکام کی خلاف ورزی کے
مترادف ہے جوحضرت علامہ مشرقی نے ہم خاکساروں کے نام جاری فرمائے
ہيں۔“
ميں نے کہا ”مگرميں پانی کے دام وصول کرنے سے معذرت چاہتا ہوں“۔
حضرت علامہ مشرقی کے ان احکام کے پيچھے يقينا کوئی فلسفہ کار فرما ہوگا۔
مگراس وقت يہ فلسفہ ميرے لئے قطعی طور پر ناقابل فہم تھا۔ دلچسپ بات يہ ہے
کہ ميرے يہ مہمان عزيز اردو کے نامور شاعر ،ن۔م۔راشد تھے۔ ان دنوں راشد کے
والد سرگودھا کے ڈسڑکٹ انسپکٹر آف اسکولز تھے اور ہمارے پہاڑی علاقے ميں
مقيم تھے جہاں کی آب وہوا ميدانوں کے مقابلے ميں معتدل ہوتی ہے۔ يہ واقعہ
خاکسارتحريک سے ميری ابتدائی ”ڈس الوژنمنٹ“ کا ايک بہت بڑا سبب تھا۔
حضرت علامہ مشرقی کا سامنا
بعد ميں جب ميں نے حضرت علامہ مشرقی کے خطبات کا مطالعہ کيا تواگرچہ ميں
ان ميں قوت اورحشمت اورخدمت اورحرکت اورتوانائی کے پيغام سے متاثر ہوا۔
مگرعلامہ نے جہاں بھی مسلمانوں کے زوال کے سبب اورثبوت کی نشاندہی
فرمائی‘ شاعروں اوراديبوں کو بھی ساتھ ہی دھرليا۔ ميں يہ سب کچھ پڑھتا تھا تو
ايک شاعر اور اديب کی حيثيت سے بے قرار ہو جاتا تھا۔ دراصل ميں بھی اپنے فنی
نقطہ نظر کو قوت اور حشمت اور خدمت اور حرکت اور توانائی سے عبارت
سمجھتا تھا اس لئے دوسرے زوال پسند گروہوں ميں اہل قلم کی شموليت کوعلامہ
کی زيادتی پرمحمول کرتا تھا۔ پھر آج سے کوئی 32 سال پہلے جب ميں ”پھول“ اور
”تہذيب نسواں“ کا ايڈيٹر تھا ميں نے اچھره ميں ايک مکان کرائے پر ليا۔ ايک روز
گھر سے نکلا تو چند ہی قدم کے فاصلے پر ايک اور مکان کے دروازے ميں
مجھے ايک شخص کھڑا نظر آيا۔ جس کی صورت حضرت علامہ مشرقی کی
تصويروں سے بہت مشابہہ تھی ميں نے محلہ کے ايک دکاندار سے اس شخص کا
نام پوچھا تومعلوم ہوا کہ يہی علامہ مشرقی ہيں اور يہی ان کا رہائشی مکان ہے
کچھ عجيب سا احساس ہوا کہ ميں اتنی مشہور و معروف شخصيت کا پڑوسی ہوں
اس شخص کی عظمت مجھ پر بعد ميں واضح ہوئی فی الحال ميں ان کی صرف
شہرت سے مرعوب تھا۔
چند روز بعد لاہور ميں زبردست بارش ہوئی ميں دفتر سے گھر لوٹ رہا تھا ۔ علامہ
صاحب کے مکان کے سامنے سے گذار تو ايک مسلمانہ آواز آئی۔ ”اے نوجوان!
ادھرآؤ۔ ميرے گھرميں پانی گھس آيا ہے اسے باہر نکالنے ميں ميری مدد کرو!“۔
علامہ صاحب کا لہجہ مجھے بھلا نہ لگا وه اگر نرمی سے بھی کہتے تو مجھے
انکار کی مجال کہاں تھی۔ ميں اندر گيا تو پندره بيس افراد بالٹياں بھر بھرکرصحن
سے پانی باہر گلی ميں انڈيل رہے تھے۔ ميں نے بھی ايک بالٹی سنبھالی اورکام ميں
لگ گيا ايک شخص صورت آشنا سا لگا باتوں باتوں ميں ميں نے اس سے علامہ
صاحب کے لہجے کی شکايت کی تو وه بولا۔ ”ميں بھی آپ کی طرح خاکسار نہيں
ہوں۔ علامہ صاحب کا صرف محلہ دار ہوں مجھے بھی علامہ صاحب نے بالکل
اسی طرح بلايا جيسے وه خاکساروں کے کسی جيش کو ”کاشن“ دے رہے ہوں مگر
مجھے اس لہجہ کا پس منظر معلوم ہے، يہ بہت عظيم آدمی ہے۔ اس کا اصلاح کا
فلسفہ بڑا جاندار، بڑاحقيقت پسندانہ ہے۔ يہ شخص بڑے بڑے عہدے کوٹھکرا کر
يہاں ہمارے پاس اچھرے ميں آ بيٹھا ہے مگر قوم نے اس کی کما حقہ قدر نہيں کی۔
اس کی تحريک کی خاکی وردی اور اس کے بيلچے کے مفہوم کو نہيں سمجھا يہ
جتنا بڑا عالم دين ہے اتنا ہی بڑا رياضی دان ہے، اتنا ہی بڑا ماہر تعليم ہے، اتنا ہی
بڑا سائنس دان اور فلسفی ہے اور بحيثيت مجموعی قوم اس کی عظمت اور اہميت
سے بے خبر ہے۔ اس صورت ميں اس کے لہجہ ميں تلخی کا پيدا ہونا قدرتی امر
ہے اس لہجے ميں نرمی ہم لوگ ہی پيدا کرسکتے ہيں کہ اس کے پيغام کوسمجھيں
اور جو راه پخار اس نے اپنے لئے منتخب کی ہے۔ اس پر اسی کے ہم قدم چليں اور
يوں صديوں کے جسمانی اور ذہنی اور روحانی جمود اور پوست کے خولوں کو
توڑ ڈاليں اور سيدھے سادے اور آسان مذہب کے سچے اور اچھے پيرو بن جائيں۔
کيا تم نے ”تذکره“ پڑھا ہے؟
سراسرعمل‘سراسرجہاد
ميں نے”تذکره“ نہيں پڑھا تھا، سو اس شخص نے مجھے علامہ صاحب کيی يہ
تصنيف پڑھنے کی ترغيب دی تب ميں نے اسے پڑھا اور مجھ پر انکشاف ہوا کہ
علامہؒ صاحب تو بے حد دو ٹوک قسم کے انسان ہيں کوئی لگی لپٹی اٹھا رکھنا انہيں
آتا ہی نہيں۔ وه انگريز ہو يا ہندو يا سرمايہ دار ہو يا ملا ہو يا شاعر ہو يا اخبار نويس
ہو وه سب کے بارے ميں سچ کہتے ہيں اور سب کے سامنے سچ کہتے ہيں۔ اتنا سچا
اتنا بے ساختہ آدمی کسی نے پہلے کاہے کو ديکھا تھا چنانچہ سب سے بڑی”اے
ہے۔ تذکرے کے بعد مجھے علامہ صاحب کی جو بھی Abnormality“ بنار ميلٹی
تحرير ہاتھ لگی اسے پڑھ ڈالا اور ميں اس نتيجہ تک پہنچا کہ علامہ صاحب
توعمل، سراسر عمل، جہاد، سراسر جہاد کے مبلغ ہيں ان کا فلسفہ حيات جاندار
اور قوت بخش ہے شاعری کو انہوں نے محض اس لئے برا کہا کہ جو شاعری
بے عملی، انفعاليت، مايوسی اور بے معنويت کا پرچار کرتی ہے وه يقينا گردن
زدنی ہے جب وه کہتے ہيں کہ:
”ہم توايک مساوی، غيرمتعصبانہ، روا دارانہ مگر غالب نظام قائم کرنا چاہتے
ہيں“۔
تواس غيرمبہم اعلان ميں انسان کا گزشتہ ڈيڑھ ہزارسال کا تہذيبی اور روحانی اور
عمرانی اور مشينی ارتقاء بول رہا ہوتا ہے۔جب وه فرماتے ہيں کہ:
”اس نظام کی بنياد نيکی سعی وعمل اور عدل پر ہوگی“۔
تو وه دراصل صحيح اور سچی قرآنی تعليم کوعام کر رہے ہوتے ہيں وه مسلمانوں
کے کردار پر تنقيد کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ:
”مسلمان خدا کی وحدانيت کا ہزار قائل سہی مگر جب وه کسی ترغيب ميں آکر کوئی
گناه کرتا ہے تو توحيد کے تصور سے ٹوٹ کر ره جاتا ہے کيونکہ اس طرح وه
اس جذبے کی پرستش کا بھی مجرم ہے جس نے اسے گناه پر اکسايا۔ حالانکہ
پرستش توصرف خداکی کرنی چاہيے۔ اور خدا لا شريک ہے“۔
اس مقام پرعلامہ مشرقی اور علامہ اقبال کتنے متحد نظر آتے ہيں۔ اقبال کا ارشاد:
باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشريک ہے
شرکت ميانہ حق و باطل نہ کر قبول
يہ جتنی کھری باتيں ہيں اوراگر ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کی مکمل
اصلاح چاہتے ہيں تو ان باتوں کو اپنا معيار حيات اور اپنا مقصد حيات تسليم کرنا
ہوگا۔ اس کے بارے ميں علامہ مشرقی کے اس ارشاد کو مسلسل عام کرنے کی
ضرورت ہے کہ:
”اسلام تو ايک ساده اورغير پچدار مذہب ہے اور چونکہ ارباب غرض نے اسے
پچدار بنا دا ہے اسی لئے اس کے احکام پرعمل رسمی ہو کر ره گيا ہے“۔
اسی طرح حکومت کے بارے ميں علامہؒ صاحب کی يہ کسوٹی کتنی ساده مگر
سچی ہے کہ:
”کسی ملک کی حکومت کے اچھا ہونے کا معيار اس ملک کے عوام کی خوش
حالی ہے“۔
سوچنے کی ٹيس
يہ سب کچھ کہنے کے بعد جب حضرت علامہ مشرقی يہ کہتے ہيں”کہ ميں تو
مسلمان ميں”سوچنے کی ٹيس“ پيدا کرنا چاہتا ہوں، تو ان سيدھے سادے الفاظ ميں
کتنا درد کتنا خلوص ہے۔ مثبت اور ارتقائی انقلاب انہيں قوموں کے ہاں رونما ہوتے
ہيں جن کے افراد کے دل ودماغ سوچنے کی ٹيس سے آشنا ہوں۔ آج علامہ صاحب
زنده ہوتے تو ميں کسی نہ کسی طرح ان کی خدمت ميں حاضر ہونے کی جرات کر
کے يہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کرتا کہ اس ملک کے بہت سے شاعروں،
بہت سے اديبوں اور بہت سے اہل قلم کا کل سرمايہ يہی”سوچنے کی ٹيس“ ہی تو
ہے۔ انتقال سے باره برس پہلے علامہ مشرقی نے دنيا بھر کے سائنس دانوں کو ہمہ
گيرانسانی فلاح وبہبود کی خاطر، قرآن مجيد کی تعليمات کے مطابق تسخيرکائنات
کا جو پيغام بھيجا تھا وه ميرے نزديک جديد علوم کے جرات مندانہ استعمال کا ايک
شہ پاره ہے۔ يہ پيغام ”انسانی مسئلہ“ کے نام سے پمفلٹ کی صورت ميں اشاعت
پذير ہوچکا ہے اس ميں انسانی عظمت کا اعلان اتنے تيقن سے کيا گيا ہے اورخلا
کی تسخير کے سلسلے ميں ايسے عالمانہ اور ماہرانہ اشارے ديئے گئے ہيں کہ
علامہ صاحب کے فکر کی رسائی پر حيرت ہوتی ہے۔ خلاؤں کو تسخير کرنے
والے اگرعلامہ صاحب کی اس تحرير کو اپنا منشور بنا ليں تو وه چاند اور مريخ
پر سے کره ارض پر موت کی شاعيں ڈالنے کی خدشات ظاہر کئے جارہے ہيں ان
کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ بڑی قوميں وہی ہوتی ہيں جو اپنے
بڑوں کو ياد کرتی ہيں اور اپنے عمل سے ان يادوں کو تازه رکھتی ہيں۔ ميں اس
امر پر اظہار مسرت کئے بغير نہيں ره سکتا کہ پاکستانی قوم بھی ايک بڑی قوم
ہونے کے ثبوت فراہم کرنے لگی ہے۔
Al-Islah, Lahore, August 23-29, 1994, p. 15-18
No comments:
Post a Comment